وفات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم

چوتھا خطبہ "ماہ ربیع الثانی” بعنوان "وفات مصطفیٰ ﷺ ” قرآن و حدیث کی روشنی میں” بسلسلہ "بارہ مہینوں کی تقریریں”
تمہیدی کلمات
بعنوان وفات مصطفیٰ ﷺ
نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ: فَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: إِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ترجمہ: آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔ حضرات گرامی! جس طرح ربیع الاول حضور ﷺ کی ولادت مبارکہ کا مہینہ ہے اسی طرح ربیع الاول ہی سرکار دو عالم ﷺ کی وفات شریفہ کا مہینہ ہے۔ ربیع الاول مسلمانوں کے لیے مسرت و غم کے ملے جلے جذبات کا آئینہ دار بن کر آتا ہے میں چاہتا ہوں کہ ربیع الثانی کے خطبات میں جہاں سیرت طیبہ کی بے مثال اور درخشندہ پہلو آپ کے سامنے آتے ہیں وہیں پر سیرت النبی ﷺ کے ان مسلسل خطبات میں وفات رسول ﷺ کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے تا کہ آپ حضرات کے سامنے میرے آقا حضرت محمد ﷺ کی وفات شریفہ کے حالات بھی سامنے آجائیں اور آپ یہ معلوم کر سکیں کہ قدرت خداوندی کسی کی بھی پابند نہیں ہے بلکہ اس کا ہر فیصلہ اس کی شان صمدیت اور وحدانیت کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے فیصلوں کے سامنے کسی کو اف تک کہنے کی مجال نہیں ہے ۔ فَعال لما يُريدُ ہے)
ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریر
حضرات گرامی! سرکار دو عالم ﷺ نے جب مشن نبوت کی تکمیل فرمائی اور اپنی نبوت کا تئیس سالہ سنہری دور پورا کر لیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مختصر سادستورالعمل آپ کو دیا گیا۔ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا. (پ۳۰) ترجمہ : جب خدا کی مدد اور فتح آپہنچے آپ لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتا دیکھ لیں تو اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیجئے اور اس سے استغفار کی درخواست کیجئے وہ بڑا تو بہ قبول کرنے والا ہے۔
سورہ نصر کی ان آیات سے آپ نے محسوس فرمالیا کہ اب آخرت کی تیاری کا حکم دیا جارہا ہے او ر پھر حجتہ الوداع سے واپسی پر اس آیت کریمہ کے نزول سے تو اور بھی بات یقینی سی ہوگئی: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ كُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) کہ آج کے دن تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کر دیا اور میں نے اسلام کو دین بننے کے لیے پسند کر لیا۔
اسی لئے اب کے جو رمضان المبارک آیا تو آپ نے دس روز کی بجائے ہیں بیس روز اعتکاف فرمایا اور جبریل امین نے قرآن مجید کا ایک دور کرنے کی بجائے آپ کے ساتھ دو دور مکمل کئے اس غیر معمولی تبدیلی سے بھی آخرت کی تیاری کا تصور اور گہرا ہو گیا ہے۔
شہدائے احد کی مغفرت کی دعا
شہدائے احد جو اسلام کی سربلندی کے لیے جنت کے وارث بن گئے تھے۔ ان میں سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے گرامی منزلت چچا بھی شامل تھے۔ ایک دن آٹھ برس کے بعد ان کو بھی زبان نبوت سے دعا دینا ضروری معلوم ہوا تو آپ شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لے گئے ۔ آپ نے شہدائے احد کی نماز جنازہ پڑھی اور شہدائے احد کو کچھ اس انداز سے رخصت فرما یا جیسے کوئی دنیا سے رخصت ہونے والا اپنے زندہ عزیز واقارب کو رخصت کیا کرتا ہے۔ صلى رسول الله القتلى احد بعد ثمان سنين كا لمودع للا حياء) کہ حضور ﷺ نے شہدائے احد کی نماز جنازہ آٹھ سال کے بعد پڑھی اور ان کو الوداع کہا، جیسے دنیا سے رخصت ہونے والا اپنے زندہ عزیزوں کو کیا کرتا ہے۔
جب نبی کریم ﷺ کی تکلیف بڑھ جاتی ہے تو تمام ازواج مطہرات نے آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ منقول ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تمام ازواج مطہرات سے یہ کہا تھا: ایک دن آپ جنت البقیع میں تشریف لے گئے ۔ وہاں سے واپس آئے تو سر مبارک میں درد شروع ہو گیا۔ آپ کی علالت کا آغاز درد ہوتا ہے اور پھر بخار آنا شروع ہو گیا اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن اس مرض کی شدت میں بھی اپنے آپ معمول کے مطابق باری باری ازواج مطہرات کے ہاں قیام فرماتے رہے اور عدل نبوت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں واقع ہوا۔ ایک روز جب بیماری میں شدت پیدا ہوگئی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ میں کل کہاں ٹھہروں گا؟ ازواج مطہرات نے نہایت ہی نیاز مندی سے عرض کیا کہ حضور جہاں پسند فرمائیں! چونکہ دوسرے دن حضرت عائشہ کے ہاں ٹھہرنے کی باری تھی اس لیے تمام ازواج مطہرات نے منشائے ، پیغمبر کے پیش نظر آپ کو سیدہ عائشہ کے حجرہ مبارک میں قیام فرما ہونے کی اجازت دے دی۔ سیدہ فاطمہ نے امہات المومنین سے مرضی رسالت کا تذکرہ فرما کر حضور ﷺ کے لیے عائشہ کے ہاں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔ اور حضرت علیؓ اور حضرت عباس دونوں سرکار دو عالم کا بازو تھام کر خود حجرہ عائشہ میں چھوڑنے کے لیے آئے۔ لما اشتد برسول الله الله وجعه استاذن نساء ان يكون في بيت عائشه ويقال انما قالت ذالك لهن فاطمة (طبقات ابن سعد ج ۲ )
حضرات گرامی!
آخری وقت حجرہ عائشہ میں قیام نبوت نے پسند فرمایا
حجرہ میں مستقل قیام کی اجازت ازواج مطہرات سے سید فاطمۃ الزہرہ نے حاصل کی۔
حجرہ عائشہ میں نبوت کو آخری وقت حضرت علی و عباس نے پہنچایا
حجرہ صدیقہ پر ثلاثہ کا اعتماد، نبی، علی، فاطمہ)
پنجتن کے تین ووٹ عائشہ کے ساتھ
حسنین فاطمہ کے لاڈلے بیٹے تھے ان کا ووٹ بھی عائشہ کے ساتھ
اب بتائیے لڑائی کس بات پر ؟
جھگڑا کس بات پر ؟
مناظرہ کس بات پر؟
پسند نبی ﷺ نے کیا
اجازت فاطمہ نے لی
چھوڑ کر علی آئے
اگر مناظرہ کا شوق ہے تو جاؤ علی سے مناظرہ کرو؟ علی کی مرضی سے نبی ﷺ ابوبکر کے گھر گئے علی کی مرضی سے نبی عائشہ کے گھر گئے۔
معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ پر علی رضی اللہ عنہ کو بھی اعتماد تھا سیدہ فاطمتہ الزہرہ کو بھی اعتماد تھا۔ جو عا ئشہ کا باغی ہوگا وہ سید نا علی اور سیدنا فاطمہ کا باغی ہوگا !
حضرات گرامی! جب تک سرکار دو عالم ﷺ کو نقابت اور کمزوری زیادہ نہیں ہوئی اور آمد ورفت کی قوت رہی تو آپ ﷺ مسجد میں نماز پڑھانے کی غرض سے تشریف لاتے رہے۔ سب سے آخری نماز جو آپ ﷺ نے پڑھائی وہ مغرب کی نماز تھی۔ سر میں شدید درد تھا اس لیے سر پر رومال باندھ کر تشریف لائے اور نماز ادا کی جس میں سورہ والمرسلات عرفا کی قرات فرمائی۔ جب عشاء کا وقت آیا تو دریافت فرمایا کہ نماز ہو چکی؟ لوگوں نے عرض کی کہ سب کو حضور کا انتظار ہے! آپ نے برتن میں پانی بھرواکر غسل فرمایا! پھر اٹھنا چاہا کہ غشی آ گئی ! افاقہ کے بعد پھر دریافت فرمایا کہ نماز ہو چکی؟ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ حضور ﷺ کا انتظار ہے!
آپ نے پھر غسل فرمایا اور اٹھنا چاہا تو پھر غشی آ گئی ! پھر افاقہ ہوا تو آپ نے دریافت کیا کہ نماز ہو چکی؟ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ حضور ﷺ آپ کا انتظار ہے! آپ نے تیسری مرتبہ غسل فرمایا اور اٹھنا چاہا تو پھر غشی طاری ہو گئی !
پھر جب افاقہ ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا: مرو ابابكر فليصل بالناس) کہ ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ نے معذرت کے انداز میں عرض کیا کہ حضور ﷺ ؟ انه رقيق القلب يا رسول الله) کہ ابو بکر بہت ہی نرم دل ہیں۔ حضور ﷺ کا مصلیٰ خالی دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے گے! مگر حضور ﷺ نے پھر وہی حکم فرمایا! تیسری مرتبہ جب عائشہ نے معذرت خواہانہ انداز میں عرض کیا تو سرکار دو عالم ﷺ نے ذرا سی سختی سے فرمایا: مروا بابكر فليصل بالناس) کہ حضرت ابو بکر کو سرکار دو عالم ﷺ کا حکم سنایا گیا تو آپ نے حکم نبوی کے مطابق نماز پڑھائی! صحابہ کرام اور ابو بکر کی روتے ہوئے ہچکی بندھ گئی ۔ سیدنا صدیق اکبر آپ کے ارشاد کے مطابق امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
وفات شریفہ سے چار دن قبل آپ کی طبیعت قدرے سکون پذیر ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ پانی کی سات مشکیں آپ پر ڈالی جائیں ۔ جب آپ غسل فرما چکے تو آپ نے فرمایا کہ گھر میں کوئی ہے؟ عرض کیا گیا کہ علی عباس موجود ہیں۔ ! آپ نے دونوں کو بلایا اور دونوں کا سہارا لیتے ہوئے مسجد میں تشریف لے گئے جماعت کھڑی ہو چکی تھی اور حضرت ابو بکر نماز پڑھارہے تھے۔ ابو بکر نے صحابہ کے اشارات سے سمجھ لیا کہ حضور ﷺ تشریف لے آئے ہیں ۔ حضرت ابو بکر مصلیٰ چھوڑ کر پیچھے ہٹے ، تو سرکار دو عالم ﷺ نے اشارہ سے روکا فرمایا کہ اپنے مقام پر کھڑے رہو!
سرکار دو عالم ﷺ آگے تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی ۔ یعنی آپ کو دیکھ کر ابو بکر کو دیکھ کر صحابہ کرام ارکان نماز ادا کرتے جاتے تھے ۔
فضائل صدیق پر خطیب الانبیاء کا آخری خطبہ
حضرات گرامی !
نماز کے بعد سر کار دو عالم ﷺ نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ ارشاد فرمایا جوفضائل صدیق پر ایسا لا جواب اور بے مثال خطبہ ہے جو قیامت تک عظمت صدیق اکبر کا شہرہ بلند کرتا رہے گا۔ اور صدیق اکبر کی زبان نبوت سے تصدیق وتوثیق کا ایک عظیم دستاویزی ثبوت ہے۔ سبحان اللہ ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے آپ کے خطبہ شریف کے کچھ حصے بیان فرمائے ہیں۔ قال خطب رسول الله الله الله الناس وقال ان الله خير عبداً بين الدنيا وبين ماعنده . فاختار ذالك العبد ما عند الله قال قبکی ابو بکر فتعجبا لبكائه ان يخبر رسول الله ﷺ عن عبد خير فكان رسول الله صلى الله لة هو المخير وكان ابو بكر هو اعلمنا . فقال رسول الا الله ان من امن الناس في صحبته وما له ابو بكر ولو كنت صلی متخذاً خليلا غير ربي لا تخذت ابا بكر خليلا ولكن اخوة الاسلام و مودته. لا يبقين في المسجد باب الاسد الا باب ابي بكر. (بخاری) (مفہوم ) آپ ﷺ اللہ نے فرمایا: کہ اللہ نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کو قبول کرئے یا اللہ کے پاس والی نعمتوں کو قبول کرے، لیکن اس بندے نے اللہ ہی کے پاس کی چیز کو قبول کیا ہے! سرکار دو عالم ﷺ نے یہاں تک ارشاد فر مایا تھا کہ صدیق رونے لگے! ابوسعید کہتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا۔ یہ رونے کو کون سا مقام ہے رسول ﷺ تو ایک بندے کا واقعہ بیان فرمار ہے ہیں ! لیکن بعد میں معلوم ہو گیا کہ ابو بکر کو ہم سب سے زیادہ علم تھا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ رسول ہی وہ بندے ہیں جنہوں نے دنیا کی نعمتیں چھوڑ کر وہ اختیار کر لیا جو اللہ کے پاس ہے گویا آپ ہمیں چھوڑ جانے والے ہیں۔
حضور ﷺ نے صدیق رضی اللہ عنہ کو دلاسہ دیا یار غار کو روتے دیکھا تو آپ کو شفقت بھرے انداز میں رونے سے چپ کرایا۔ یعنی منبر سے ہی صدیق کو تسلی دے کر دلاسہ دیا۔ اور پھر فرمایا میں تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال اور رفاقت کا ممنوں ہوں ۔ اگر امت میں سے اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت اور محبت کا رشتہ کافی ہے! پھر فرمایا دیکھو؟ مسجد کے رخ کوئی دروازہ کھلا نہ چھوڑا جائے۔ سوائے ابوبکر کے دروازے کے!
طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت عباس نے کہا۔ یارسول ﷺ کیا بات ہے کہ آپ نے کچھ لوگوں کے دروازے بند کرا دیئے اور کچھ لوگوں کے کھلے رہنے دیئے۔ فرمایا نہ میں نے اپنے حکم سے کھولے اور نہ اپنے حکم سے بند کئے ہیں گویا جو کچھ ہوا خدا کے حکم سے ہوا پھر آپ ﷺ نے انصار کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی، کیونکہ انصار مدینہ آپ کی رفاقت اور مجلسوں کو یاد کر کے روتے تھے! پھر اسامہ بن زید کو ایک لشکر کا امیر بنا کر زید بن حارثہ کے قاتلوں کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا۔
اور پھر فرمایا: لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذو اقبور انبیاء هم مساجدا) کہ لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر جنہوں نے قبروں کو مسجد بنایا)
حضرات گرامی ذرا غور فرمائیں! بیمار کے لئے سخت بیماری کے عالم میں مسجد کی حاضری معاف ہے وہ گھر پر نماز پڑھ سکتا ہے! سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شدید بیماری کے عالم میں جب کہ حضرت عمر حضرت عبد اللہ بن مسعور حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ اس قدر شدید بخار تھا کہ کسی کا ہاتھ جسم اطہر پر ٹھہر نہیں سکتا تھا! آپ ﷺ نے موٹی چادر اوڑھ رکھی تھی ۔ اس کے اوپر سے بھی حرارت محسوس ہوتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے عرض کیا! یا رسول اللہ آپ کو شدید بخار ہے۔ فرمایا ہاں! مجھے اتنا بخار ہے جتنا تمہارے دو آدمیوں کو عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کا اجر بھی دو گو نہ ہوگا؟ فرمایا .. … اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں جسے مرض یا کسی اور وجہ سے تکلیف پہنچے اور اس کے گناہ اس طرح کم نہ گرتا ہو جس طرح (خزاں میں ) درختوں کے پتے گرتے اور کم ہوتے ہیں۔ گویا یہ امت کے بیماروں کے لئے خوشخبری ہے) لیکن سرکار دو عالم ﷺ اس کمزوری، نقاہت اور اس تکلیف میں بھی حضرت علی اور حضرت عباس کا سہارا لے کر مسجد میں خود تشریف لے گئے ۔ آخر کیوں اس قدر تکلیف فرمائی؟
حضرات گرامی!
در حقیقت آپ ﷺ صدیق اکبر کو خلافت کا تاج پہنانے گئے تھے۔ یہ امامت کا مصلی نہیں تھا۔ خلافت نبوت کا مصلے تھا۔ دنیا نے یہ نظارہ بھی دیکھا ! کہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم صدیق کے امام تھے، اور صدیق پوری قوم کے امام تھے دنیا سے جاتے ہوئے صدیق کے پہلو میں بیٹھ گئے اور روضہ میں صدیق کو اپنے پہلو میں سلالیا۔
پہلو ئے مصطفےٰ میں بنا آپ کا مزار
پہنچی وہیں خاک جہاں کا خمیر تھا
حضرات گرامی! ٹھہرئیے ذرا اور جلوہ بھی دیکھئے ! مسجد میں حضور ﷺ اکیلے نہیں گئے بلکہ علی اور عباس کو ساتھ لے گئے، نہیں نہیں صرف ساتھ ہی نہیں لے گئے بلکہ صدیق کی امامت میں پیچھے صفوں میں کھڑا کر دیا۔
ابوبکر امام
على مقتدی
ابو بکر امام
عباس مقتدی
کیوں یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
یہ اس لئے ہورہا ہے کہ کسی دشمن کو تردد نہ رہ جائے۔ کسی کا صدیق کی خلافت و امامت میں شبہ نہ رہ جائے۔
اس لئے نبی ﷺ علی کو ساتھ لے گئے
اس لئے نبی ﷺ عباس کو ساتھ لے گئے
تم بھی میرے صدیق کی اقتدا کرلو
جو تمہارا ہو گا وہ صدیق کا ہوگا
اور جو صدیق کا نہیں ہوگا۔ وہ تمہارا بھی نہیں ہوگا
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیا جائے جو علوی ہو گا اسے صدیقی ہونا ضروری ہوگا جو صدیقی نہیں ہو گا وہ علوی بھی نہیں ہوگا سبحان الله)
اور مزید آپ نے ﷺ نماز کے بعد فرمایا ! کہ دروازے بند صرف ابو بکر کا دروازہ کھلا رہے۔
جو خدا کے گھر میں آئے
ابو بکر کے دروازے سے آئے
جو رسول ﷺ کی مسجد میں آئے
اب میری مسجد کا دروازہ صرف اور صرف باب صدیق ہوگا۔ یعنی سوچ کر آنا اب صدیق کے دروازے سے گزرو گے تو خدا ملے گا، صدیق کے دروازے سے گزرو گے تو مصطفے ملے گا
جوان کا ہوگا میرا ہوگا جو ان کا نہیں وہ میرا نہیں! سبحان الله) اور پھر دنیا نے دیکھا اسامہ بن زید کو ایک لشکر کا امیر بنایا ! تا کہ نو جوانوں کو آگے بڑھنے کا موقعہ دیا جائے۔
بڑوں کو نو جوانوں کی صلاحیتوں کے اعتراف کا جذبہ دیا جائے۔ اور پھر پیغمبر تو حید نے نہایت رقت بھرے انداز میں فرمایا: یہودیوں اور نصرانیوں پر خدا کی لعنت ہو جنہوں نے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا
حضرات گرامی!
اللہ کے سوا کسی کو بھی سجدہ جائز نہیں ہے اگر انبیاء کی قبروں پر سجدہ حرام ہے تو..
علی ہجویری کی قبر پر بھی سجدہ کرنا حرام ہے
معین الدین اجمیری کی قبر پر بھی سجدہ کرنا حرام ہے
فریدالدین کی قبر پر بھی سجدہ کرنا حرام ہے
بہاؤالدین زکریا کی قبر پر بھی سجدہ کرنا حرام ہے
سجدہ صرف ایک ذات کا حق ہے جس نے انبیا کو پیدا فرمایا اور. اولیاء کو پیدا فرمایا نبی اور ولی سب اسی ذات کبریا کو سجدہ کرتے تھے ۔ انہوں نے کبھی غیر اللہ کوسجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے! اس لئے قبروں پر سجدہ ریز ہونے والے غور کریں کہ سرکار دو عالم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے کلمات صرف یہود و نصاریٰ کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ اس کا مصداق وہ سب لوگ قرار پائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کو چھوڑ کر غیر اللہ کو سجدے کرتے ہیں ۔ سجدہ اسی کا حق جس نے پیشانی بنائی ہے
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
پھر فرمایا۔ یا فاطمة بنت رسول الله يا صفية عمة رسول الله اعملا لما عند الله اني لا أغنى عنكما من الله شيئا . (طبقات ابن سعد ) اے رسول اللہ کی بیٹی فاطمہ ۔ اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ خدا کے ہاں کچھ کرلو میں تم دونوں کو کسی معاملے میں خدا سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔
پھر فرمایا۔ قال رسول الله يا بني عبد مناف لا غنى عنكم من الله شيئا. يا عباس بن عبد المطلب لا اغنى عنك من الله شياء (طبقات ابن سعد) اے اولاد عبد مناف؟ میں تمہیں کسی امر میں خدا سے بے نیاز نہیں کر سکتا ۔ اے عباس بن عبد المطلب میں تمھیں کسی امر میں خدا سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔
یوم وفات
حضرات محترم : آخر وہ دن آہی گیا موت سے کسی کو رستگاری نہیں ہے ۔ موت ہر کسی کو آنی ہے: کل نفس ذائقۃ الموت۔ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.) آپ آخری خطبہ دے کر حجرہ عائشہ تشریف لے گئے ۔ مرض میں شدت اور ہوتی جارہی تھی اور ایام علالت میں آپ امت کو ضروری باتوں کی ہدایت فرماتے رہے جس دن وفات ہوئی بظاہر طبعیت کو سکون تھا۔ حجرہ مبارکہ مسجد سے ملا ہوا تھا۔ آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ فجر کی نماز میں مشغول تھے دیکھ کر مسرت سے مسکرا اٹھے ۔ لوگوں نے آہٹ پاکر خیال کیا کہ آپ باہر آنا چاہتے ہیں ۔ ( یعنی مسجد میں ) فرط مسرت سے تمام لوگ بے قابو ہو گئے اور قریب تھا کہ نمازیں ٹوٹ جائیں۔ ( حضرت ابو بکر جو امام تھے چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں ) آپ نے اشارے سے روکا اور حجرہ شریفہ میں داخل ہو کر پردے ڈال دیئے ۔ ضعف اس قدر تھا کہ آپ پردہ بھی اچھی طرح نہ ڈال سکے۔ یہ سب سے آخری موقع تھا کہ صحابہ نے جمال اقدس کی زیارت کی۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ چہرہ مبارک ایسے معلوم ہوتا تھا کہ مصحف کا کوئی ورق ہے یعنی سپیدا ہو گیا تھا۔ سید نا ابو بکر نماز کے بعد حاضر ہوئے تو طبعیت بے حد پر سکون تھی اس لیے صدیق اکبر اجازت لے کر چند ساعتوں کے لیے اپنے گھر مقام سخ چلے گئے جو عوالئ مدینہ میں تھا۔ حضرت علی نے مزاج پرسی کے بعد لوگوں کو بتایا: اصبح بحمد الله باریا) کہ الحمد اللہ طبعیت بہت اچھی ہے! لیکن تھوڑی دیر بعد طبیعت پھر خراب ہوگئی اور تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بلکہ پے درپے غشی کے دورے پڑنے لگے! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اتنے میں حضرت فاطمہ آ گئیں ۔ ان کی رفتار رسول اللہ کی رفتار سے مشابہ تھی۔ آپ نے فرمایا بیٹی مرحبا اور داہنی یا بائیں طرف بٹھالیا پھر کان میں چپکے سے کوئی بات کہی اور حضرت فاطمہ رونے لگیں ۔ پھر کوئی بات چپکے چپکے کان میں کہی اور وہ ہنس پڑیں۔ رسول ﷺ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ نے بتایا پہلے مجھے خبر دی تھی کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس مرض میں میری وفات ہوگی۔ یہ سنتے ہی مجھے بے اختیار رونا آگیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تو مجھ سے ملے گی میں ہنس پڑی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کی تکلیف کو دیکھ کر حضرت فاطمہ سینہ مبارک سے لپٹ کر رونے لگی۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا نہیں میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو ۔ انا لله و انا اليه راجعون کہنا۔ ہم اللہ کے لیے اور اسی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔
یہی ہر فرد کے لیے تسکین کا باعث ہو گا۔
سکرات موت
طبیعت زیادہ بگڑی تو حضور ﷺ نے پانی سے بھرا ہوا پیالہ منگوا کر پاس رکھ دیا۔ اس میں ہاتھ ڈالتے اور تر ہاتھ چہرہ مبارک پر پھیر لیتے زبان پر آہستہ آہستہ یہ الفاظ جاری تھے: لا اله الا الله ان للموت سكرات) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور موت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ پھر دعا فرمائی: اللهم اعنى على كرب الموت) کہ اے اللہ موت کی تکلیف میں میری مددفرما) پھر فرمایا۔ انعم الله عليهم من النبيين والصديقين) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ بیماری کے عالم میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے! اذهب الباس رب الناس بيدك الشفاء لا شافي الا انت اشف شفاء لا يغادر سقما) کہ اے انسانوں کے پروردگار تکلیف دور فرمادے شفا صرف تیرے ہاتھ میں ہے تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں۔ ایسی شفا عطا کر کہ کوئی تکلیف باقی نہ رہے۔ آپ دعا پڑھ کر ہاتھ جسم پر پھیر لیتے تھے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے دعا پڑھ کر حضور ﷺ کے ہاتھ آپ کے جسم پر پھیر نے شروع کئے آپ نے ہاتھ چھڑا کر یہ دعا فرمائی: اللهم با الرفيق الا على) کہ میں اپنے اللہ سے اعلیٰ رفیق کا طلب گار ہوں۔ آپ پیالے سے ہاتھ تر کر کے چہرہ انور پر پھیر تے کبھی ایک پاؤں پھیلا دیتے اور پھر اسے اکٹھا کر لیتے۔ اسی طرح کبھی چادر مبارک چہرہ مبارک پر ڈال لیتے اور کبھی اتار لیتے۔ حضرت فاطمہ نے جب اس شدید تکلیف کو دیکھا تو حزن و ملال سے بے ساختہ پکار اٹھیں۔ واکرب آبی) کہ ہائے میرے ابا کی بے چینی) حضور ﷺ نے فرمایا بیٹی . آج کے بعد ابا کو بے چینی نہیں ہوگی !
آخری وقت عائشہ کی زبان پر اعتماد
وفات شریفہ سے کچھ دیر پہلے عبدالرحمن بن ابی بکر مزاج پرسی کے لیے آئے ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی حضور ﷺ حضرت عائشہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے آپ فرماتی ہیں میں نے دیکھا کہ رسول ﷺ کی نگاہیں مسواک پر ٹکی ہوئی ہیں میں نے دانتوں سے مسواک کو چبا کر نرم کر کے حضور ﷺ کو پیش کر دی۔ پھر میں نے جس طرح حضور ﷺ کو ہمیشہ مسواک کرتے دیکھا تھا۔ آپ نے اس وقت اس سے بھی اچھے انداز میں مسواک فرمائی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ دنیا کی آخری ساعت اور آخرت کے پہلے دن بھی اللہ نے میرا اور آپ کا لعاب دہن جمع کر دیا۔ چاشت کا وقت آ گیا تھا سینے میں گڑ گڑاہٹ شروع ہوگئی ۔ لب مبارک ہلنے لگے اور زبان پر یہ الفاظ تھے۔ الصلواة ، الصلواة ، وما ملكت ايما نكم) نماز نماز، اور لونڈی غلام) مطلب یہ تھا کہ نماز کی سختی سے پابندی کی جائے اور غلاموں کو آزادی کی نعمت سے مالا مال کر دیا جائے۔ پھر انگلی مبارک اٹھا کر تین بار فر مایا۔
بل الرفيق الا على
بل الرفيق الا على
بل الرفيق الا على
رفیق اعلیٰ مجھے مطلوب ہے!
یہ فرمایا کر اللہ کے آخری رسول ﷺ اپنی حیات طیبہ کے تریسٹھ سالہ درخشندہ ایام پورے کر کے عالم جاودانی کو رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون)
حضرات گرامی!
نبی ﷺ نے آخری بار صدیق کو امامت کراتے ہوئے دیکھ کر مسرت کا اظہار فرمایا۔
یہ صدیق پر رسول ﷺ کا آخری پیغام تھا۔
یہ گلشن نبوت کے پھول دار پودوں کو مہکتے ہوئے دیکھا۔
صحابہ ہمیشہ آپ ﷺ کو دیکھتے تھے آج حجرے سے رسول ﷺ نے صحابہ کو دیکھا۔ تراهم ركعا سجدا کاروح پرور منظر دیکھ کر حضور ہنس پڑے ۔
حجرہ صدیقہ سے پردہ اٹھا کر دیکھنا یہ گلشن رسالت کے صداقت کے پھولوں کی خوشبو کو سونگھنا تھا۔
سیدہ فاطمہ جو آپ کی چہیتی بیٹی تھی اس پر محبت و شفقت کی نظر پڑی ۔
شفا صرف اور صرف اللہ تعالی کی اختیار میں ہے۔
ذات خداوندی پر مکمل اعتماد
عائشہ کو تمغہ خدمت
آپ کے منہ سے چہائی ہوئی اور زبان سے لگائی ہوئی مسواک کو کرنا زبان عائشہ پر زبان نبوت کو اعتماد تھا۔ تا کہ عائشہ کو زبان دراز کہنے والوں کی گوشمالی ہو جائے۔ اور آخری آرام گاہ کے لیے حجرہ صدیقہ
اور پھر عائشہ کی گود میں وفات
ہجرت میں صدیق کی گود
وفات کے وقت صدیقہ کی گود (سبحان اللہ)
حاضرین کرام
آپ کا بہت زیادہ وقت لیا ہے مگر اس خطبہ میں جو موتی اور انوارات آئے ہیں وہ ہم سب کے ایمان و ایقان کی جان ہیں مولیٰ کریم ہم سب کو قیامت کے دن حضور ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے ۔ آمین
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين