مشرکین مکہ کو لاالہ میں اختلاف تھا

چوتھا خطبہ "جمادی الأول ” بعنوان "مشرکین مکہ کو حضور سے لا الہ میں اختلاف تھا” قرآن و حدیث کی روشنی میں "بسلسلہ”بارہ مہینوں کی تقریریں”
تمہیدی کلمات!
مشرکین مکہ کو حضور سے لا الہ میں اختلاف تھا
نَحْمَدُه وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ فَاعْوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ. بے شک وہ ایسے تھے کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے تھے۔
حضرات گرامی! اس وقت جو آیت کریمہ میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں اللہ نے بتایا ہے کہ مشرکین مکہ کو حضور ﷺ کی ذات گرامی سے بنیادی اختلاف کیا تھا؟ یہ مسئلہ کچھ ایسا اہم ہے کہ ہمیں بھی سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے کہ سرکار دو عالم ﷺ سے مشرکین کس بات پر بد کتے تھے اور کس بات پر ناک منہ چڑھاتے تھے اس پر وہ حضور ﷺ کے مقابلے پر کیوں آستینیں چڑھاتے تھے اور کیوں حضور ﷺ کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے۔ اس مسئلہ کو معلوم کرنے کے لیے ہزاروں کتابیں پڑھ جائیے اور لاکھوں علمی موشگافیاں سنتے جائیے مگر جب قرآن پاک کے سمندر میں غوطہ لگا کر اس مسئلہ کا آسان اور عام فہم خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا خلاصہ بہت ہی سادہ لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین کو حضور ﷺ سے اختلاف لا الہ میں تھا الا اللہ میں نہیں تھا ۔
جی ہاں! ہمارے ہاں جاہل لوگ مشرکین کا مفہوم یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے منکر کو مشرک کہا جاتا ہے۔
خدا کی صفات کا انکار کرنے والے کو مشرک کہا جاتا ہے
خدائی ختیارات کا انکار کرنے والے کو مشرک کہا جاتا ہے
خدائی کا مذاق اڑانے والے کو مشرک کہا جاتا ہے
کسی ادنیٰ سے ادنی آدمی کو پوچھ کیا جائے کہ بھئی مشرکین مکہ کون تھے؟ وہ فوراً کہے گا کہ جی ان کی بات چھوڑ ووہ تو خدا کے منکر تھے ! خدا کو نہیں مانتے تھے اس لیے وہ کافر تھے اور مشرک تھے ! یہ مفہوم اور مطلب صرف جاہل ہی بیان نہیں کرتے بلکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں کے ہاں بھی مشرکین کا یہی تصور ہے یعنی منکرین خدا کومشرک کہا جاتا ہے!
اس لیے آپ حضرات کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو یہ بات سمجھائی جائے کہ مشرکین کو لا الہ میں اختلاف نہیں تھا بلکہ اگر اختلاف تھا تو صرف اور صرف الا اللہ میں تھا!
وہ کہتے تھے کہ خدا کو تو ہم بھی مانتے ہیں.
اللہ کی صفات کو تو ہم بھی مانتے ہیں
اللہ کی قدرت کی تو ہم بھی مانتے ہیں
اللہ کے علم کو تو ہم بھی مانتے ہیں
اللہ کے تصرفات کو تو ہم بھی مانتے ہیں
اللہ زمین کا پیدا کرنے والا
اللہ آسمان کو پیدا کرنے والا
اللہ چاند کو پیدا کرنے والا
اللہ سورج کو پیدا کرنے ولا
اللہ تمام کائنات کا پیدا کرنے والا
تو ہم بھی مانتے ہیں تو پھر اے مشرکین تمہارا اختلاف کیا ہے؟ تو وہ کہتے تھے کہ اللہ بھی ہے اور ہمارے معبود بھی ہیں۔
یعنی صرف اللہ نہیں. یہ (من دون اللہ) اللہ کے علاوہ بھی ہیں حضور صرف اللہ کی وحدانیت بیان فرماتے ہیں اور ان کے معبودوں کی نفی فرماتے تھے۔ بس یہیں سے جھگڑا ہوتا تھا حضور ﷺ فرماتے تھے پہلے لا الہ .. پھر الا اللہ، اور مشرکین کہتے تھے کہ الا اللہ بھی، من دون الله بھی.. ہی نہیں .. بھی) آپ کا معبود بھی، ہمارے معبود بھی ۔
ہی اور بھی کا جھگڑا
حضرات گرامی: اس بات کو ذہن میں پختہ کر لیا جائے کہ جھگڑا الا اللہ میں نہیں، بلکہ لاالہ میں تھا، حضور ﷺ فرماتے تھے اللہ کے سوا اور کوئی نہیں !. مشرکین کہتے تھے اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں، حضور ﷺ ان کے معبودوں کی نفی کرتے تھے ۔ مشرکین دنیا بھر کی گالیاں اور ظلم وستم کے طوفان لے کر کھڑے ہو جاتے تھے ۔
قربان جاؤں رحمت دو عالم ﷺ کی ذات گرامی پہ کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گئے مگر سرکار دو عالم ﷺ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی، سرکار دو عالم مشرکین کے معبودوں کی نفی کرتے تھے! مشرکین کو حضور ﷺ کا نفی کرنا ہی پسند نہیں تھا ! معلوم ہوا کہ پہلے نفی ہوگی تو پھر اثبات ہوگا
لاالہ پہلے ہے. الا اللہ بعد میں ہے قرآن مجید سنیے: إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ. اے محبوب : جب ان مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو … یہ تکبر کرتے ہیں!
حضرات گرامی! يَسْتَكْبِرُونَ کا معنی ہے ہمارے مقابلے میں کون آسکتا ہے! ہم طاقت والے اور نتھنے پھیلا کر منہ پسورکر کہتے تھے: آتَنَّا لَتَارِكُوُا الْهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونِ ” ( سورة صفت ) اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعر اور دیوانہ کی وجہ سے چھوڑ دیں ؟ لاالہ کا معنی ہی یہی تھا کہ اللہ کے سوا تمام مخلوق کی پوجا پاٹ چھوڑو!. اس لیے مشرکین نے اس کا معنی سمجھ کر کہا کیونکہ وہ اہل زبان تھے، وہ سمجھتے تھے کہ لا اللہ کا معنی کسی کو ماننا نہیں، بلکہ چھوڑ نا آتا ہے۔ اس لیے ہم محمد (ﷺ) کے کہنے سے اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے ۔
ایک سانس میں دو گالیاں
مشرکین سرکار دو عالم ﷺ کی محبت بھری اور ایمان افروز تقریر پر لبیک کہتے دل کی گہرائیوں میں جگہ دیتے مگر ان بد بختوں اور مردہ نصیب مشرکین نے ایک سانس میں سرکار دو عالم ﷺ دو گالیاں بک دیں! شاعر ہے، دیوانہ ہے)
شاعر کا مفہوم ان کے ہاں بے تکی باتیں کرنے والے کو کہا جاتا تھا! مجنون دیوانہ معاذ اللہ عقل و خرد سے عاری! معاذ الله ، استغفر الله)
محترم حضرات! توحید کا وعظ سن کر گالیاں بکنا مشرکین کی پرانی عادت ہے۔ نبوت کی توحید سے روشن تقریر کو شاعرانہ خیال قرار دینا مشرکین کا پرانا معمول ہے اللہ تعالی نے اپنے محبوب کی عظمت کو دوبالا کرتے ہوئے جواب میں ارشاد فرمایا: وَمَا عَلَّمُنهُ الشَّعْرَ وَمَا يَنْبَغِى لَهُ) کہ ہم نے اپنے پیغمبر کو نہ ہی شعر کا علم دیا ہے اور نہ ہی یہ ان کی شان کے لائق تھا۔لا الہ الا اللہ کے جواب میں مشرکین چڑ کر جو باتیں کرتے تھے قرآن نے ان کو ٹیپ کر کے ہم تک پہنچا دیا ہے۔ بٹن دبائیے اور سنئے قرآن کہتا ہے: وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ اَجَعَلَ الأَلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ وَانْطَلَقَ الْمَلَا مِنْهُمُ اَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى الهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ) کہ اور کافروں نے کہا (معاذ اللہ ) یہ جادو گر ہے جھوٹا ۔ کیا اس نے اتنے معبودوں ( کی جگہ) ایک ہی معبود بنادیا۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ اور ان میں سے سردار یہ کہتے ہوئے چل کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو۔ بے شک اس بات میں کوئی نہ کوئی غرض ہے)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ صرف ایک معبود کے تصور ہی سے بے گانہ تھے! خدائے واحد کو معبود واحد ماننے میں انہیں نہ صرف تامل نہ تر دو، بلکہ سخت تعجب تھا۔ محض ایک خدا کی الوہیت وعبادت کی دعوت پر سرکار دو عالم ﷺ کی نشانہ جورو جفا اور ہدف شب وشتم بنایا گیا۔ کبھی آپ کو شاعر و مجنوں کہا گیا تو کبھی ساحر و کذاب … اور ستم بالائے ستم یہ بہتان بھی باندھا گیا کہ اس میں آپ کی کوئی ذاتی غرض پوشیدہ ہے۔ آپ کوئی حکومت اور اقتدار کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ سرکار دو عالم ﷺ کی شان میں یہ تمام گستاخیاں صرف اس وجہ سے تھیں کہ آپ ہمارے معبودوں کی نفی کر کے خدائے واحد کی عبادت کی دعوت کیوں دیتے ہیں۔ قریشی وڈیرے اور مجاور یہ بات سن کر طیش میں آکر کھڑے ہو گئے اور یہ کہتے ہوئے چل کھڑے ہوئے کہ چھوڑ و جی یہ اگر ہمارے معبودوں کی جڑیں کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں تو ہم نہایت ثابت قدمی سے اپنے معبودوں کی حمایت اور اعانت پر ڈٹے رہیں گے !
معلوم ہوا کہ جہاں خداوند کریم کی تمام صفات کا اقرار کرنا تو حید ہے۔ اسی طرح غیر اللہ کی عبادت کی تمام جزئیات کا انکار کرنا بھی توحید ہے ۔
قرآن کی چوتھی شہادت
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَازَتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ. الَّذِينَ مِنْ دُونِةٍ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ.) اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل خراب ہو جاتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اسکے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس وقت وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا قرآن مجید نے کتنا عجیب نقشہ کھینچا ہے کہ جب اللہ واحد کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل نفرت و کراہت اور غم و غصہ سے بھر جاتے ہیں۔ توحید الہی سے ناگواری کے باعث ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دل گھٹ گھٹ جاتے ہیں ۔ اور اگر غیر اللہ کا بھی ذکر اللہ کے ساتھ ملا کر کیا جائے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور باغ باغ ہو جاتے ہیں ۔ آج بھی ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ کہ مقرر مسئلہ تو حید پر بیان کرے گا تو پتھروں کی بارش ہوگی ۔ گالیوں کی بوچھاڑ ہوگی۔ طعن و تشنیع کا بازار گرم کر دیا جائے گا تالیاں پیٹی جائیں گی شور و ہنگامہ ہوگا اور اگر کسی پھاٹک شاہ، تو ڑی شاہ ، ٹاہلی شاہ اور چو ہے شاہ کا ذکر کیا جائے گا تو نعرے ہوں گے. واہ واہ ہوگی، داود تحسین کے ڈونگرے ہوں گے! لنگر ہوگا، مٹھائی ہوگی حلوہ ہوگا، ہاتھ چومیں جائیں گے جوتے سیدھے کئے جائیں گے، دست بستی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں گے اور پھر ان ملنگوں کی طرح پشت نہیں ہوگی، اس کا فلسفہ کیا ہے یہ تو مرید ہی جانے؟
قرآن کی پانچویں شہادت
اللہ تعالی فرماتے ہیں: ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكَ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ. ( سورة مومن )
یہ اس واسطے ہے کہ جب اکیلا اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جا تا تھا تو تم مان لیتے تھے! پس خدائے اعلیٰ وکبیر کا فیصلہ ہے۔
معلوم ہوا کہ مشرکین کو ضد تھی تو صرف یہ کہ اس کی اکیلا کیوں مانتے ہو۔ ہمارے معبودوں کی نفی کر کے ان کو اس کے ساتھ شریک کرنے سے کیوں انکار کرتے ہو، یہ بھی اور وہ بھی۔
پہلی امتوں کے مشرک اسی مرض کے مریض تھے
قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ روگ اور یہ بنیادی کوڑھ کا مرض صرف مشرکین مکہ کو ہی نہیں تھا، بلکہ پہلی امتوں کے مشرکین کا مرض بھی یہی تھا گویا کہ مرض ایک ہی تھا مگر ڈاکٹر تبدیل ہوتے گئے۔ ارشاد ہوتا ہے: اَلَمْ يَأْتِكُمُ نَبَؤُا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَّ ثَمُودَ وَالَّذِيْنَ مِنْ بَعْدِ هِمْ لَا يَعْلَمُهُمُ إِلَّا اللهُ جَاءَ تُهُم رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَتِ) کہ کیا تم کو ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں ( یعنی ) قوم نوح ، عاد اور ثمود اور جو ان کے بعد ہوئے ہیں جن کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان کے پیغمبر ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے۔
جب انبیاء نے ان مشرک اقوام کو؛ تو حید خداوندی کا پیغام دیا اور دلائل و براہین کی روشنی میں لا الہ کا مفہوم پیش کیا تو انہوں نے ( یعنی کافروں نے ) جواب دیا۔ قَالُوا إِنْ أَنْتُمُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُوْنَا بِسُلْطَنٍ مُّبِينٍ. انہوں نے کہا تم تو ہماری ہی طرح محض ایک آدمی ہو۔ تم چاہتے ہو کہ ہمارے آباؤ اجداد جس چیز کی عبادت کرتے تھے ۔ اس سے ہمیں روک دو … سوکوئی صاف معجزہ دکھاؤ!
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ پہلی امتوں کے مشرکوں نے انبیاء کی دعوت کا اس لیے انکار کر دیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمیں اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت سے روکتے ہیں۔ قرآن مجید نے ان تمام مشرک قوموں کا نام لے کر ان کے مرض کا ذکر کرتا ہے۔ آپ بھی سنئے !
قوم نوح
قوم نوح کے متعلق فرمایا: وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ الهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا يَغُوُتَ وَيَعُوق ونسرا) کہ اور کہا تم اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑنا ۔ (بالخصوص ) نہ ودکو اور سواع کو اور نہ یغوث اور نسر کو چھوڑنا ۔
قوم عاد
قوم عاد کے متعلق فرمایا: قَالُوا أَجِتُتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَمَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا. (اعراف) انہوں نے کہا کیا آپ ہمارے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ہم ان کو چھوڑ دیں؟
اللہ تعالی کی عبادت کو تو وہ مانتے تھے لیکن صرف اور صرف اللہ واحد کی عبادت ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ پیغمبر کا ان کو اللہ ہی کہ عبادت کی دعوت دینا اور غیروں کی عبادت کو چھڑانا یہی ان کے لیے زہر تھا۔ یہ وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے! قوم ہود نے پھر سرکشی کرتے ہوئے حضرت ہود سے کہا: قَالُوا يَهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيَّنَةٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِي الِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ ( پاره ۱۲ هود ) کہ اے ہود آپ نے ہمارے سامنے کوئی دلیل پیش نہیں کی اور ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبودوں کی عبادت کو چھوڑنے والے نہیں اور ہم آپ پر یقین نہیں کرنے والے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سارا جھگڑا اور اختلاف اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت پر تھا ۔ اللہ تعالی کے سچے پیغمبر اس کی اجازت نہیں دے سکتے تھے اور کفار و مشرکین ان کی عبادت چھوڑ نہیں سکتے تھے ۔
قوم ثمود
اللہ نے ان کے متعلق فرمایا: قَالُوا يَصْلِحُ قَدْ كُنتَ فِيْنَا مَرُجُوا قَبْلَ هَذَا أَتَنْهَنَا أَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ . (سوره هود ) ان لوگوں نے کہا اے صالح ہمیں تو اس سے پہلے آپ سے بڑی امیدیں تھیں کیا تم ہم کو ان کی عبادت سے منع کرتے ہو! جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے ہیں۔ اور تو ہم کو جس دین کی طرف بلا رہا ہے، بے شک ہم تو اس کے بارے میں شک میں ہیں جس نے ہم کوتر در میں ڈال رکھا ہے۔
اہل مدین
اہل مدین کا ذکر قرآن یوں کیا ہے: قَالُوا يَشُعَيْبُ اَصَلوتُكَ تَأمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ ابَآؤُنَا . (سوره هود) کہا اے شعیب ! کیا تیری نماز تجھے حکم کرتی ہے کہ ہم ان چیزوں کی پرستش چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے!
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر دور اور ہر زمانے کے مشرکین اللہ کی وحدانیت اور توحید خداوندی کے منکر اور شدید مخالف تھے اور اللہ کے سوا متعدد خداؤں کے قائل تھے ، اور اسلام نہ صرف ان کے اس عقیدے کے پرخچے اڑاتا ہے۔ اللہ تعالی کے بعد کئی خدا اور مشکل کشا تو کجا، وہ کسی دوسرے اللہ کے تصور تک کا تحمل نہیں کرتا۔ اس لیے ہر پیغمبر اور ہر رسول ﷺ سے مشرکین کی جنگ لاالہ میں رہی۔
انبیاء اور سرکار دو عالم ﷺ نے اپنی تمام تر قوتیں اور توانائیاں صرف کر کے اللہ تعالی کی وحدانیت کا درس دیا اور دوسرے معبودوں کی پوری قوت سے نفی فرمائی تاکہ۔
نفی کے بعد اثبات ہو! پہلے لا الہ پھر الا اللہ
آخری گزارش!
حضرات گرامی ! توحید کا عقیدہ پورے ارکان اسلام میں روح کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اگر اس عقیدہ توحید میں ذرہ بھر کوئی کمزوری واقع ہوگئی تو ارکان اسلام کی پوری عمارت پیوند زمین ہو جائے گی ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک خوبصورت مکان بنانے کے لئے ایک نقشہ بنوایا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر کے لئے مختلف عمارت کے نمونے دیکھے جاتے ہیں اور جب ایک خوبصورت نقشہ پسند کر لیا جاتا ہے تو ابتداء جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے اور جس کی مضبوطی پر سب سے زیادہ دھیان کیا جاتا ہے وہ اس مکان کی بنیاد ہوتی ہے بنیاد جس قدر مضبوط ہوگی عمارت اسی قدر اپنی خوبصورتی کو برقرار کھ سکے گی ۔ گویا کہ عمارت کی بنیاد ہی اصل چیز ہے اسی پر تمام عمارت کا دارو مدار ہو گا۔ اسی طرح عقیدہ توحید بھی بنیاد ہے ان ارکان اسلام کی خوبصورت عمارت کے لیے جو ہمیں آخرت میں سرخرو کریں گے۔
عقیدہ صحیح ہوگا توحید اس کی بنیاد میں راسخ ہوگی تو اعمال کی عمارت کی قدر ہوگی ورنہ ریت کے محلات کی طرح اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی..
اسی طرح دوسری مثال بھی آپ یاد رکھیں کہ جس طرح انسان کا جسم مختلف چیزوں کا مرکب ہے۔ ہاتھ ہیں۔ پاؤں ہیں۔ آنکھیں ہیں، دماغ ہے، زبان ہے اور اس کی اور بہت سی چیزیں ہیں۔ مگر انسان کے اس سارے نظام کا دارو مدار روح پر ہے۔ زبان نہیں تو انسان زندہ رہے گا مگر دل باقی نہیں رہے تو انسان کی پوری عمارت ڈھیر ہو کر رہ جائے گی۔
معلوم ہوا کہ انسان کے تمام جسم کا دارو مدار دل پر ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ اسی عقیدہ توحید کی آبیاری کے لیے تشریف لائے آپ نے عظمت تو حید کو اپنا خون دے کر تا بندہ کیا! اس لیے تو حید وسنت اور توحید ورسالت ہماری عقیدت اور اطاعت کا مرکز ہیں ہمارا نہ تو توحید کے بغیر گزارہ ہوسکتا ہے۔ اور نہ ہی. رسالت محمد ﷺ کے بغیر گزارہ ہوسکتا ہے۔
اقبال نے کیا خوب رموز توحید کو بیان کیا ہے۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا الله
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ
وما علینا إلا البلاغ المبین