عظمت انسان پر تقریر

دوسرا خطبہ "جمادی الأول ” بعنوان "عظمت انسان” قرآن و حدیث کی روشنی میں "بسلسلہ”بارہ مہینوں کی تقریریں”
تمہیدی کلمات!
عظمت انسان
نَحْمَدُه وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اَمَّا بَعْدُ فَاعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ: (احزاب) ہم نے بار امانت کو آسمان اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے امانت الٰہی کے بار کو اٹھانے سے معذرت کر دی اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس بارگراں کو اٹھالیا۔
حضرات گرامی! اس وقت جو آیت کریمہ میں آپ نے حضرات کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں عظمت انسان اور عظمت بشر کا مسئلہ نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا گیا ہے اس سے پہلے کہ میں آپ حضرات کو آیت کریمہ کے الفاظ کا مطلب اور مفہوم سمجھاؤں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تمہیدی طور پر ایک مقدمہ آپ کے سامنے پیش کردوں جس کے سمجھنے کے بعد ان شاء اللہ آیت کریمہ کا مفہوم جلدی سمجھ آ جائے گا۔
پہلا خطبہ: جمادی الأول
انبیاء کرام کی مشترکہ دعوت توحید
محترم بزرگو: انسان کی پیدائش سے پہلے اس کا ئنات میں دو مخلوق ایسی تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے روح بھی عطا فرمائی تھی اور شعور بھی ان دونوں کے نام جنات اور ملائکہ ہیں، جنات کی سرشت میں سرکشی اور تمرد ہے۔ اور ملائکہ کی سرشت میں اطاعت و عبادت ہے۔ اگر موجودہ دور کی اصطلاحوں میں ان دونوں کا نام آسانی سے معلوم کرنا ہوتو بہت آسان زبان میں اور عوام و خواص کی زبان میں ان کو جن .. اور نوری فرشتے کہا جاتا ہے ۔ گویا کہ انسان کی تخلیق سے پہلے جنات بھی موجود تھے اور فرشتے بھی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کو باشعور بھی پیدا فرمایا تھا اور ذی روح بھی بنایا تھا۔ اللہ تعالی مختار مطلق ہیں وہ نہ تو کسی کے مشورے کے پابند ہیں اور نہ ہی کسی کے تعاون اور اعانت کے محتاج ہیں ۔ اپنی مرضی کے مالک ہیں جو چاہیں اور جب چاہیں کرتے ہیں ان کے سامنے کسی کو دم مارنے کا چارہ نہیں ہے (فعال لما يريد) جو ارادہ فرماتے ہیں وہ کر گزرتے ہیں ان سے کوئی کیا اور کیوں نہیں پوچھ سکتا ؟
ایک دفعہ موج میں آکر فیصلہ فرما دیا کہ کیوں نہ اپنی امانت کا تاج کسی مخلوق کو عطا کر کے اسے امانتوں کا بادشاہ بنا دیا جائے۔
تاج امانت کیا تھا؟
اس میں توحید کے جواہر پارے بھی تھے۔
اس میں احکام الہی کے موتی بھی تھے۔
اس میں امور خلافت کی ذمہ داریاں بھی تھیں ۔
اس میں عقل و بصیرت کے لا زوال ذخیرے بھی تھے ۔
اس میں خلافت ارضی کی تابندگی بھی تھی۔
اس میں اطاعت و عبادت کے ہیرے بھی تھے۔
اس میں حکم ربانی کی درخشندگی بھی تھی ۔
اس میں عشق و محبت کے یا قوت بھی تھے۔
اس میں عظمت انسان کے درخشندہ ستارے بھی تھے۔
اس میں ماننے اور نہ ماننے کے نتائج و ثمرات بھی تھے۔
اس میں تسلیم ورضا کے عظیم شاہ کار بھی تھے۔
اس میں محبت وعداوت کے پیمانے بھی تھے۔
حضرات گرامی: آپ کو معلوم ہی ہے جتنا بڑا امانت رکھنے والا ہوگا ۔ اتنی بڑی اس کی امانت ہوگی۔
کسی کی امانت سونا
کسی کی امانت چاندی
کسی کی امانت دولت
کسی کی امانت ثروت
کسی کی امانت جائداد
کسی کی امانت باغات
کسی کی امانت زراعت
مگر اس مالک الملک کی امانت خلافت، نبوت، صداقت، ولایت، شریعت، طریقت، اس مالک الملک نے تاج امانت دینے کے لیے آسمانوں کو شرف خطاب سے سرفراز فرمایا۔ اے آسمانو؟ انَّا عَرَ ضُنَا الاَ مَا نَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ) کہ میں اپنی اس امانت کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں کیا تم میری اس امانت کو قبول کرتے ہو۔ کیا اس امانت کی ذمہ داریاں پوری کر سکو گے؟ فَا بَينَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَاشْفَقْنَ مِنْهَا) انہوں نے ڈر کے مارے بار امانت لینے سے معذرت کر دی۔
حضرات گرامی! یہ موقع کوئی روز روز تھوڑا ہی آتا ہے؟ یہ تاج امانت مل رہا ہے! کیوں معذرت کرتے ہو۔ کیوں قبول نہیں کرتے ؟ کیا اسے نبھا سکو گے؟
اے بلند آسمانو؟ تمھیں کیا ہوا؟
تم مخلوق میں سب اونچے،
تم مخلوق میں سب سے بلند و بالا ہو
تم مخلوق میں سب سے قد آور ہو،
آواز آتی ہے باری تعالیٰ..
ہم سورج کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
ہم چاند کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
ہم ستاروں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
ہم جنت کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
ہم بیت المعمور کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
ہم سدرۃ المنتہی کا بوجھ اٹھاسکتے ہیں۔
مگر امانت ربانی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے
کیوں؟ اس لیے کہ الہی بوجھ اٹھانے کی ہمت ہے اور نہ صلاحیت، اس لیے ہماری طرف سے معذرت معذرت معذرت..
امانت زمین کو سونپا گیا مگر
حضرات محترم! جب آسمان امانت ربانی کا بار اٹھانے سے معذرت کر گئے اور اس منصب کے اپنے آپ کو اہل نہ سمجھ پائے تو مولیٰ کریم نے یہی امانت کا تاج ۔ یہی امانت کا طغرائے امتیاز زمین کے سامنے پیش فرمایا۔
ارشاد ہوتا ہے۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْآمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ …… وَالْأَرْضِ) کہ اے زمین یہ میری امانت کا خزانہ تیرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ تو اس قبول کرلے مگر زمین نے بھی نہایت عاجزی سے اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کر دی۔ فَابَيْنَ أَنْ يَّحْمِلْنَهَا ….. وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا معذرت …… معذرت معذرت کیوں ڈر لگتا ہے، ڈر لگتا ہے۔
اے زمین تیری خوش قسمتی ہے! تجھے امانت الہیہ کی پیش کش ہوئی ہے! معذرت کیون کردی؟ یہ عظمت ہے، قبول کر لو
یہ اعزاز ہے یہ رفعت ہے، اعزاز ہر کسی کو نہیں دیا جاتا، مقدر کا ستاره ہے کہ تجھے اس اعزاز سے سرفراز فرمایا جارہا ہے، اے زمین جلدی کر اپنا دامن پھیلا دے اور امانت الٰہی کو دامن میں چھپالے مگر زمین کہتی ہے۔
مجھے پہاڑوں کا بوجھ دو گے تو برداشت کرلوں گی
مجھے فلک کا بوجھ دو گے تو برداشت کرلوں گی
مجھے کوہ ہمالیہ کا بوجھ دو گے تو برداشت کرلوں گی
مجھے جمادات کا بوجھ دو گے تو برداشت کرلوں گی
مجھے نباتات کا بوجھ دو گے تو برداشت کرلوں گی
مجھے سمندروں کا بوجھ دو گے تو برداشت کرلوں گی
میرا سینہ چیر پھاڑ کے زراعت کے لیے ہموار کرو گے تو برداشت کرلوں گی
مجھے نہروں کا بوجھ دو گے تو برداشت کرلوں گی
اور سچ پوچھو تو عظمت آدم کے لیے ہر مصیبت برداشت کرلوں گی
مگر تاج امانت کا بوجھ میرے بس کی بات نہیں ہے۔
آواز آتی ہے کیوں؟ آخر کیوں؟ تو زمین جواب دیتی ہے کہ میں اس کی نہ سکت رکھتی ہوں اور نہ صلاحیت، اس لیے میں نے معذرت کر دی ہے اور اسی عاجزانہ معذرت اور انکساری کو اپنا زیور سمجھ کر اس کی تسبیحات میں مصروف و مشغول ہوں۔ زہے نصیب ۔
امانت پہاڑ کو دیا گیا مگر
حضرات گرامی! جب آسمان نے معذرت کر دی اور زمین نے بھی امانت ربانی کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کر دی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اسی امانت کو پہاڑوں کے سامنے پیش فرمایا ۔ ارشاد ہوتا ہے۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْآمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ.) کہ اے پہاڑ . یہ میری امانت تیرے سپرد ہے اس کو قبول کرلے ۔ اور میری عظمتوں کا امین بن جا مگر پہاڑ بھی آسمانوں اور زمینوں کی طرح تھر تھر کانپنے لگا اور اس نے بھی نہایت نیاز مندی سے اور انکساری سے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ مولیٰ مجھ میں سکت کہاں؟ معذرت قبول فرما .. .. معذرت قبول فرما معذرت قبول فرما: فَابَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا)
میں اس قابل کہاں؟
میں اس لائق کہاں؟
مجھ میں یہ صلاحیت کہاں؟
اے پہاڑ وکیوں معذرت کرتے ہو!
آواز آتی ہے اے پہاڑ!
تمہاری طاقت و توانائی کا تو پوری دنیا میں شہرہ ہے!
تمہاری قوتوں کے تو گھر گھر چرچے ہیں۔
تو نے تو بڑے بڑے سرکشوں کے سر کچل دیئے۔
فلک پیما عمارتیں تمہاری طاقت کے بل بوتے پر کھڑی ہیں! تمہاری قوت اور طاقت کے تو محاورے بن چکے ہیں۔
شاعر کے مصرعوں کی شان پتھر
محبوب کے دل کی دھڑکن کی پہچان پتھر
خطیب کی تقریروں کا عنوان پتھر
محبوب کی سختی کا نشان پتھر
زیب وزینت کا عنوان پتھر
نگینے کی شان پتھر
بادشاہوں کی شوکت کا نشان پتھر
کیوں ہے پریشان .. کیوں نہیں اٹھاتا … امانت کا امتیازی نشان
پتھر بولتا ہے تیری بات درست ہے مگر ہمت، صلاحیت، سکت جواب دے چکی۔
میں نگینے سجا سکتا ہوں۔
میں مدینے بسا سکتا ہوں
میں سینے لبھا سکتا ہوں۔
میں دفینے دلا سکتا ہوں۔
مگر امانت خداوندی کے خزینے نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے اس سختی و بلندی کے باوجود اس کے حضور ہر وقت سجدہ ریز رہتا ہوں۔ کبھی کبھار لڑھکتے ہوئے پتھر میری حیثیت کا پتہ دیتے ہیں اور کبھی کبھار ٹوٹتے پتھر میرے خوف ورجاء کا پتہ دیتے ہیں۔
میں جہاں ہوں رہنے دیا جائے
میری بندگی اسی کے لیے
میری عاجزی اسی کے لیے
میری دن رات کی تسبیح اسی خالق کائنات کے لیے وقف ہے جس نے مجھے قوت اور توانائی بخشی ہے ۔ لا قوة الا بالله)
حضرات! آپ اگر بیدار ہیں اور آپ کو میری ابتدائی گفتگو یاد ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ حضرت انسان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالی نے اس دنیا میں دو مخلوق ایسی پیدا فرمائی تھیں جن کو ذی روح بھی بنایا تھا اور باشعور بھی آئیے ہم سب مل کر اب اس بات کا جائزہ بھی لے ڈالیں کہ جیسے اللہ تعالی نے اپنی امانت کا بارگراں آسمانوں کے سامنے پیش فرمایا۔ اور زمینوں کے سامنے پیش فرمایا اور اسی طرح پہاڑوں کے سامنے پیش فرمایا۔ کیا اسی طرح یہ پیشکش جنات اور ملائکہ کے سامنے بھی کی یا نہیں لیکن آپ یہ سن کر حیران و ششدر رہ جائیں گے کہ جس امانت کی پیش کش آسمان اور پہاڑ کو کی گئی۔ جب نوریوں اور ناریوں کا مرحلہ آتا ہے تو ان کو پیش پیش تو در کنار ان سے پوچھا تک نہیں گیا۔ بلکہ ایک دفعہ یوں ان کے سامنے اپنے فیصلے کا اعلان فرما دیا کہ دنیائے جن و ملائکہ ششدر و حیران رہ گئے۔
فیصلہ خداوندی کا اعلان
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَّسْنُون.
اور اے پیغمبر (وہ وقت یاد کرو) جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا۔ میں گلے سڑے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے لگا ہوں۔
معلوم ہوا کی جنات اور ملائکہ کے سامنے امانت خداوندی پیش ہی نہیں کی گئی، اگر نوری ملائکہ بارامانت اٹھانے کے متحمل ہو سکتے تو ضرور انہیں بھی پیشکش کی جاتی!
غالی کی بے جا وکالت
حضرات گرامی! جس نورانی مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے بار امانت کی پیش کش کے وقت پوچھا تک نہیں ، اس کی وکالت عہد حاضر کا غالی نہایت زور شور سے کر رہا ہے۔
تاج امانت اس کے سپرد کرنا چاہتا ہے
تاج خلافت اس کے سپرد کرنا چاہتا ہے۔
تاج نبوت اس کے سپر د کرنا چاہتا ہے۔
حالانکہ نبوت اور خلافت کے لیے اس نورانی مخلوق کو پیدا ہی نہیں کیا گیا ۔
کیا فائدہ اس جدو جہد کا جس کا کوئی مرکز ہی نہ ہو!
کیا فائدہ اس عمارت کے نقشے قائم کرنے کا جس کی بنیادنہ ہو! کیا فائدہ اس درخت کو پانی لگانے کا حس کی جڑیں زمین میں نہ ہوں!
نوری ملائکہ حمد و ثنا کر سکتے ہیں
نوری ملائکہ ذکر و فکر کر سکتے ہیں
نوری ملائکہ تمجید و تقدیس کر سکتے ہیں
نوری ملائکہ قیام وقعود تو کر سکتے ہیں
نوری ملائکہ رکوع و سجود تو کر سکتے ہیں
مگر
نوری ملائکہ نہ ہی بار نبوت اٹھا سکتے ہیں
نہ ہی خلافت کا بار اٹھا سکتے ہیں
نہ ہی خلافت الیہ کا تاج پہن سکتے ہیں
یہ نورانیوں کا وکیل ….پانی میں مدھانی چلا رہا ہے
وکالت کرنی ہے تو آدم کی کر
وکالت کرنی ہے تو بشر کی کر
جس کی تو اولاد ہے
جس کا تو مرہون منت ہے!
باپ کوئی ہے وکالت کسی کی ہے؟
ہمیں ان کے وجود اور صداقت پر ایمان لانا ہے۔ ان کی نبوت اور خلافت پر نہیں..
خرد کا نام جنون رکھ دیا اور جنون کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حاضرین کرام! آپ کو معلوم ہو گیا کہ تخلیق انسان سے پہلے جن مخلوقات کو روح اور شعور سے نوازا گیا تھا ان کو بار امانت پیش ہی نہیں کیا گیا۔ اس لیے اب یہ سمجھنا ضروری ہو گیا کہ جب”
امانت ربانی نہ ملائکہ کو ملی
نہ جنات کو ملی
نہ آسمانوں کو ملی
نہ زمین کو ملی
نہ پہاڑوں کوملی
پھر آخر یہ تاج امانت سجانے کے لیے کس کا انتخاب کیا گیا تو قرآن کہتا ہے کہ پھر ایک اور مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس مخلوق کو قرآن کی زبان میں بشر کہا جاتا ہے(سبحان الله) اني خالق بشرا)
تخلیق بشر
حضرات گرامی! جب عمارت عالیشان بنانی ہوتی ہے تو اس کے لیے ملک بھر سے نہایت ہی بلند و پایہ کاری گر اور معمار تلاش کئے جاتے ہیں اور وہ معمار اپنی فنی اور تخلیقی شاہکار کے وہ بے نظیر اور بے مثال ڈیزائن بناتے ہیں کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے۔ باری تعالی نے جب حضرت انسان کے وجود کی بلڈنگ بنانے کا ارادہ فرمایا تو اس کے لیے خود اپنے دست مبارک سے اس بلڈنگ بنانے کا فیصلہ فرمایا۔ اور اعلان فرمایا: اني خالق بشرا من طين) اور پھر مزے کی بات یہ ہے!
آفتاب بنایا کن کہہ کر
چاند بنایا کن کہہ کر
ستارے بنایا کن کہہ کر
پہاڑ بنایا کن کہہ کر
جنات بنایا کن کہہ کر
ملائکہ بنایا کن کہہ کر
لیکن اے انسان میں تیرے قربان جاؤں بلکہ ارشاد ہوتا ہے: خَلَقُتُهُ بِيَدَيَّ) کہ میں نے انسان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا
حضرات گرامی!
خدا نے انسان کو کن کہہ کر کیوں نہیں بنایا؟ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو معلوم تھا کہ
زمین پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا
آسمان پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا
چاند پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا
سورج پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا
ستاروں پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا
اعتراض ہوگا تو بشر پر
انکار ہوگا تو بشر پر
نہیں مانیں کے تو بشر پر
نہیں تسلیم کریں گے تو بشر پر
اس لیے خداوند قدوس نے پہلے ہی منکر بشریت کے ریت کے محلات کو پیوند زمین کر دیا کہ میں بشر کو اپنے ہاتھوں سے بناؤں گا۔ تا کہ بشر پر اعترض کرنے والے کا بشر پر اعتراض بعد میں ہوگا۔ میرے ہاتھوں پر اعتراض پہلے ہوگا۔
بلڈنگ پر اعتراض
معمار پر اعتراض ہوگا
اس لیے بشر کا دشمن سوچ کر بولے
یہ بشریت پر اعتراض ہے؟
یا خالق بشریت پر اعتراض ہے؟
مبارک ہو غالی کو تیرا شمار بشر کے دشمنوں میں ہوگا
میرا شمار بشر کے غلاموں میں ہوگا
ہمارا عقیده ہے کہ معمار بھی اعلی بلڈنگ بھی اعلی، نہ اس معمار کائنات کے ہاتھوں کا مقابلہ، اور نہ اس معمار کا ئنات کی تخلیقات کا مقابلہ
تخلیق بشریت اس عظیم تخلیق شاہکار کا نام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَإِذَا سَوَيْتُهُ) جب میں اس کو بنا سنوار لوں (سبحان الله)
حضرات گرامی! ذرا غور کریں اللہ تعالیٰ نے صرف بشر کو بنایا ہی نہیں ، بلکہ اس کو سجایا بھی ! لَقَدْ خَلَقْنَا إِلَّا نُسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقُویم) جب بشر بن گیا اور بنا سنوار دیا گیا تو اب کھل کر ملائکہ اور جنات کو بتایا گیا کہ تمام عظیم مخلوقات کی معذرت کے بعد اب تاج امانت اس بشر کے سر پر رکھا جائے گا جو سپیشل بنایا ہی اسی لیے گیا ہے۔
تاج امانت انسان کے سر پر
وَاذْقَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ط قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ط قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (بقره) اور جب کہا تیرے پروردگار نے فرشتوں سے میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں وہ بولے کیا تو اس میں ایسے کو بنائے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا ۔ دراں حالیکہ ہم تیری حمد کی تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی پکارتے رہتے ہیں اللہ نے فرمایا یقینا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
مولائے کریم نے تاج دینے کے لیے ایک ایسی مخلوق کو پیدا فرمانے کا قصد مصم فرمایا جو اس تاج کے پہننے کے قابل تھی۔ جو خلافت خداوندی کے امور کو بجا طور پر سر انجام دے سکتی تھی ۔ اس لیے ملائکہ کوجمع فرما کر ان کے اجتماع میں اعلان فرمایا کہ اے نوریو! إنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةَ) یہ کون تھا جسے خلیفہ بنانے کا فیصلہ سنایا جارہا ہے۔ یہ و ہی بشر تھا جس کی تخلیق اپنے ہاتھوں سے فرمائی اور پھر اپنے ہاتھوں سے بنا سنوار کر اس کے سر پر تاج خلافت رکھنے کا فیصلہ فرما دیا۔
حضرات گرامی!
خدا نے بشر کو پیدا فرمایا
خدا نے بشر کو اپنے ہاتھوں سے بنایا
خدا نے بشر کو بنا سنوار کو اس کی عظمتوں کو دوبالا کر دیا۔
اسی بشر کو خلافت عطا فرمانے کا اعلان فرمایا۔
تو معلوم ہوا جو بشر ہے وہی آدم ہے
اور جو آدم ہے وہ خلیفہ ہے اور وہی امانت خداوندی کا صحیح حقدار ہے، اب اگر کہہ دیا جائے کہ اسی انسان کے سر پر امانت رکھ کے اسے تمام مخلوقات کا تاجدار بنا دیا گیا تو یہ حقیقت کی ترجمانی ہوگی اور عظمت بشر کا اعتراف ہوگا ۔
ملائکہ نے کہا اے خدا وند قدوس ! کیا آپ ایسی مخلوق کو خلیفہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو فساد کرے گی زمین میں: مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ) اور خونریزی کرے گی؟ حالانکہ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ) ہم تیری حمد کی تسبیح کرتے ہیں، و نُقَدِّسُ لَكَ) اور تیری پاکی کا ترانہ پکارتے ہیں ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ نئ مخلوق فساد اور خون ریزی کرے گی ۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مفسرین کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ ملائکہ نے بنی آدم کے متعلق فساد برپا کرنے اور خونریزی کرنے کا نظریہ جنوں پر قیاس کر کے قائم کیا تھا۔ کیونکہ پہلے زمین پر جن آباد تھے اور ان کا فساد فی الارض خون خرابہ فرشتے دیکھ چکے تھے تو انہوں نے خیال کیا کہ نبی آدم جنہیں خلیفہ بنایا جائے گا۔ وہ بھی ایسے ہی ہوں گے ! كما فعل بنو الجآن فقاسو الشاهد على الغائب (معالم) ترجمہ: جیسا کہ کیا جنوں نے فرشتوں نے آدم کو جنوں پر قیاس کر لیا۔ انهم عرفو خليفته و عرفوا انه مركب من هذه الاخلاط الاربعة. (كبير) ترجمہ: وہ فرشتے حضرت آدم کی پیدائش کو جانتے تھے کہ یہ اخلاط اربعہ سے مرکب ہے۔ اور ساتھ ہی ان کا یہ کہنا کسی اعتراض یا بنی آدم پر حسد کی غرض سے نہیں تھا! چنانچہ ابن اکثیر میں ہے۔ ليس على وجه الاعتراض على الله ولا على وجه الحسد بني آدم كما قد يتو همه بعض المفسرين ( ابن كثير ) کہ فرشتوں کا یہ کہنا اللہ پر اعتراض نہیں تھا اور نہ ہی نبی آدم کے ساتھ حسد کی وجہ سے تھا جیسا کہ بعض مفسرین کا وہم ہے ۔
خلاصہ یہ کہ جب کام کرنے والوں کا ایک گروہ موجود ہے تو ایک نئی مخلوق کو جن میں کوئی کام کا کوئی نہ ہوگا۔ اس کام کے لیے تجویز فرمانے کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح فرشتوں کی عرض و معروض اظہار نیاز مندی کے واسطہ تھی۔ اور یہ بات کسی طرح ان کو اللہ نے معلوم کرا دی ہوگی کی بنی آدم میں برے بھلے سب ہی طرح کے ہوں گے (بیان القرآن) أَنِّي أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ. یقیناً میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ أني اعلم من المصلحة الراجحة في خلق هذا الصنف على المفاسد التي ذكر تموها مالا تعلمون . (ابن كثير) جو مفاسد تم نے اس مخلوق کے بیان کئے ہیں۔ میرے علم میں ان کے مفاسد پر ان کے خیر کے پہلو غالب ہیں۔ اس لیے میں نے اس کی تخلیق کو ترجیح دی ہے۔ اور بشر کو پیدا کرتے وقت اپنی قدرت کا ملہ سے اس میں تمام محاسن و کمالات کو جمع کر دیا۔ بشر کو پیدا کرنے کے بعد اس کو تاج خلافت دینے کا اعلان فرما دیا۔ فرشتوں کے جواب میں بشر کی خوبیوں کو یہ فرما کر اظہار فرما دیا کہ تو اب مجھے کہنے دیجئے کہ
جو امانت آسمانوں کو نہ ملی سکی۔
جو امانت زمینوں کو نہ مل سکی
جو امانت پہاڑوں کو نہ مل سکی
جو امانت جنوں کو نہ مل سکی
جو مانت ملائکہ کو نہ مل سکی
قربان جاؤں اے انسان تیرے کہ اس امانت کا تاج تیرے سر پر سجایا گیا گویا کہ اب
بشر آسمانوں سے اعلیٰ
بشر پہاڑوں سے اعلیٰ
بشر زمینوں سے اعلیٰ
بزر جنوں سے اعلیٰ
بشر ملائکہ سے اعلیٰ
اور اگر خدا سے پوچھو تو خدا کہتا ہے: وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونَ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ. (۳۰) مجھے تین کی قسم، مجھے زیتون کی قسم مجھے طور کی قسم مجھے مکہ مکرمہ کی قسم، ذالك اشارة الى ماخص به الانسان من بين الحيوان من العقل والفهم) یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو کس طرح دوسری مخلوقات سے عقل و فہم قد وقامت اور تمام مخلوق پر ہر اعتبار سے بالا تر اور بلندی عطا فرمائی ہے۔
مولیٰ یہ چار قسمیں کیوں کھارہا ہے۔ فرما یا مسئلہ اہم ہے اس لیے چار قسمیں کھا کر کہتا ہوں: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ.) اور ہم نے انسان کو بہترین انداز کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ و انتصاب القامة الدالة على استعلائه على كلّ ما في هذا العالم (راغب) خداوند قدوس قسمیں کھا کر فرماتے ہیں کہ انسان تمام مخلوق میں اعلیٰ وافضل۔
مگر غالی کہتا ہے..
بشر کو رسالت مت دو
بشر کو نبوت مت دو
بشر کو ولایت مت دو
بشر کو صداقت مت دو
کیوں غالی بتا تو سہی ؟
بشر کو خلافت کیوں نہ ملے
بشر کو رسالت کیوں نہ ملے
بشر کو نبوت کیوں نہ ملے
بشر کو ولائت کیوں نہ ملے
تو غالی کہتا ہے کہ بشر تو گناہ گار ہوتا ہے۔ ارے غالی اگر کوئی بشر گناہ گار ہے تو ایک بشر محبوب کردگار بھی ہے، تیری نظر
شر پر تو گئی تیری نظر خیر پر کیوں نہ گئی؟ بشر خدا کی خدائی میں سب مخلوق سے اعلیٰ، پھر بشر کے مختلف درجات ہیں۔
ساری مخلوقات میں بشر اعلیٰ
سب انسانوں میں ولی اعلیٰ
سب ولیوں میں على اعلیٰ
تمام اولیا اور علی میں صدیق اعلی
تمام اولیا اور علی وصدیق میں نبی اعلیٰ
اور تمام انبیاء میں میرا مصطفے اعلیٰ
جیسے خدا کا خدائی میں کوئی شریک نہیں۔ ویسے ہی مصطفے ﷺ کا مصطفائی میں کوئی شریک نہیں، خدا کے بعد خدائی کو تصور غلط، مصطفے ﷺ کے بعد مصطفائی کا تصور غلط ۔
بشر کا پہلا دشمن
حضرات گرامی : آپ کو اب تک معلوم ہو چکا ہوگا کہ حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کا اعزاز عطا کرنے کے لیے پیدا فرمایا: تخلیق آدم کے بعد فرمایا: وَعَلَّمَ ادَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَئِكَةِ فَقَالَ الْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هو لاءِ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ قَالُوا سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ انْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ . اور اللہ نے آدم کو نام سکھلا دیے تمام چیزوں کے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ پھر فرمایا بتلاؤ تو ان کے نام اگر تم سچے ہو! وہ بولے تو پاک ذات ہے ہمیں تو کچھ علم نہیں، مگر ہاں وہی جو تو نے ہمیں علم دے دیا۔ بے شک تو ہی بڑا اعلم والا حکمت والا ہے ۔ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِينٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ، اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ .) اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا میں مٹی سے بشر کو پیدا کونے والا ہوں ، بس جب میں اس کو سنوار لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب فرشتے اس کے لیے سر بسجود ہو جاؤ بس سب ہی نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ مانا۔ گھمنڈ کیا اور علم الٰہی میں پہلے ہی کافروں میں سے تھا۔ قَالَ يَإِبْلِيسُ مَالَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّجِدِينَ قَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ قَالَ فَاخْرُجُ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَحِيْمٌ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ. (حجر) اللہ نے فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ کہا مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا ہے جو سوکھ کر بجھنے لگتا ہے۔ حکم ہوا اگر ایسا ہے تو یہاں سے نکل جا کہ تو راندا ہوا اور جزا کے دن تک تجھ پر لعنت ہوئی۔ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكُ. (اعراف) کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا۔ جب کی میں نے حکم دیا تھا؟ ابلیس نے جواب دیا۔ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ. (اعراف) میں آدم سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے ۔
محترم حضرات : قرآن پاک کی ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرما کر انہیں علم کی دولت سے مالا مال فرمایا۔ جس سے حضرت آدم کو علمی اعتبار سے بھی تمام مخلوقات پر بالا تری حاصل ہوگئ ۔
جب آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کا شاہکار بن گئے تو عظمت آدم عظمت بشر عظمت انسان ، عظمت خلیفہ اللہ منانے کے لیے تمام ملائکہ کو حکم ہوا کہ اعتراف عظمت آدم کے لیے جھک جاؤ نوری جھک گئے مگر ناری اکٹر گیا، ناری سے پوچھا گیا کہ تم کیوں اکڑے تو اس نے جواب میں کہا۔ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ) کہ میں بشر سے بہتر ہوں۔
معلوم ہوا کہ سب سے پہلے بشر کی تو ہین شیطان نے کی سب سے پہلے بشر کے سامنے شیطان اکڑا۔ سب سے پہلے بشر کونظر حقارت سے شیطان نے دیکھا۔
کہا جاتاہے کہ فلاں طبقے کے پاس بھی دلائل ہیں اگر چپ نہ کرنا اور بولتے رہنے کا نام ہی دلیل ہے تو شیطان نے بھی دلیل دی تھی۔ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ. ابلیس کہتے ہی اسے جو جھوٹا ہونے کے باوجود بولتا رہے۔ ابلیس نے بشر کی تو ہین کی اس کو لعنت کا طوق ملا۔ ملائکہ نے بشر کی تعظیم کی انہیں خدا اور رسول ﷺ کے درمیاں سفارت کی عزت ملی۔ سبحان الله)
اس لیے معلوم ہوا کہ
بشر نبوت کا حقدار
بشر ہی رسالت کا حقدار
بشر ہی امانت کا حقدار
بشر ہی صداقت کا حقدار
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہونچا
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہونچا”
صدق الله و صدق رسوله النبي الكريم