سب سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ

سب سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ

سب سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
سب سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ

 

تیسرا خطبہ "ماہ ربیع الثانی” بعنوان "سب سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ ” قرآن و حدیث کی روشنی میں” بسلسلہ "بارہ مہینوں کی تقریریں”

تمہیدی کلمات

سب سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ 

نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اَمَّا بَعْدُ فَاعْوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: الَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنكَ وزُرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ. وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ. (پ۳۰)

ترجمہ: کیا ہم نے کھول نہیں دیا تیرا سینہ اور اتار رکھا ہم نے تجھ پر سے بوجھ تیرا جس نے جھکا دی تھی کمر تمہاری اور بلند کیا ہم نے آواز تیری،)

حضرات گرامی:

ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک حضرت محمد ﷺ کو تین خصوصی انعامات عطا فرمانے کا ذکر فرمایا ہے۔

🔹شرح صدر

🔹وضع وزر،

🔹رفع ذكر، 

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں انعامات آپ کی ذات کو بن مانگے اور بغیر درخواست کے عطا فرمائے گئے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ بعض چیزیں استاد شاگر دکو والد بیچے کو، بڑا چھوٹے کو اور آقا غلام کو درخواست کرنے پر یا مانگنے پر عطا کرتا ہے اور بعض چیزیں بغیر مانگے اور بغیر درخواست دیکھے اس کی صلاحیت دیکھ کر اس کی عظمت دیکھ کر ، اس کی استعداد دیکھ کر ، اس کی خوبیاں اور محاسن دیکھ کر، اس کی محنت اور جدو جہد دیکھ کر اس کی اپنے کام میں لگن اور ولولہ دیکھ کر خوش ہو کر دے دی جاتی ہیں۔ اسی طرح یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ عظیم الشان نعمتیں عطا کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔

ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریر

🔹شرح صدر

🔹و وضع وزر

🔹رفع ذكر

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ؟ آپ فرعون کے دربار میں پہنچ کر میری حقانیت و واحدنیت کا پیغام پہنچا ئیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حضور ایک درخواست پیش کی کہ اے اللہ ۔ میرا شرح صدر فرمادے! چنانچہ قرآن مجید اس واقعہ کو اپنی زبان میں اس طرح بیان کرتا ہے۔ اذْهَبُ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى وَيَسْرْلِي أَمْرِى وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِى . يَفْقَهُوا قَوْلِي وَاجْعَلْ لِي وَزِيْرًا مِنْ اهلِي هَرُوْنَ اَخِيُّ اشْدُدْبِةٍ أَزْرِى وَاشْرِكُهُ فِي أَمْرِى. (سورة طه) حکم ہوا اے موسیٰ۔ تو فرعون کی طرف جا وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے ۔ موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار میرا سینہ کھول دے ( کہ بڑے سے بڑا بوجھ اٹھانے کے لئے مستعد ہو جاؤں میرا کام میرے لیے آسان کر دے ( کہ راہ کی دشواری بھی غالب نہ آسکے ) میری زبان کی گرہ کھول دے کہ ( خطاب وکلام میں پوری طرح رواں ہو جائے اور ) میری بات لوگوں کے دلوں میں ( اتر جائے ) نیز میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے اس وجہ سے میری قوت مضبوط ہو جائے وہ میرے کام میں شریک ہو!

حضرات گرامی! ان آیات بینات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے پانچ چیزوں کی درخواست کی تھی!

میرا کام آسان فرما دے

میرا شرح صدر فرمادے

میری زبان کی گرہ کھول کر اسے فصیح بنا دے۔

میرے اہل بیت سے میر اوز پر بنا دے۔

ہارون ( عیہ السلام) کو میرا رفیق کا دست و باز و بنا دے۔

اور میرے مولائے کریم نے حضرت موسیٰ کی درخواست پر ان پانچوں عرضداشتوں کو منظور فرما لیا مگر درخواست گزارنے کے بعد سوال کرنے کے بعد ..

شرح صدر فرما دیا

عسر کو یسر بنا دیا

زبان پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے۔

اہل بیت سے ہارون کو وزیر بنادیا۔

اور ہارون کو آپ کو رفیق سفر اور رفیق کار بنا دیا

مگر میں قربان جاؤں آمنہ کے یتیم لعل امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی کے جب آپ کی باری آتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے مانگنے اور سوال کرنے کا انتظار نہیں فرمایا بلکہ در بارشاہی سے خود فیصلہ فرما کر اپنے محبوب کو اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ : (اے محبوب ) کیا ہم نے آپ کا شرح صدر نہیں فرمایا . یعنی میں نے آپ کا شرح صدر فرما کر آپ کو دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال فرما دیا۔

شرح صدر کیا ہے؟

حضرات گرامی ! شرح صدر کی اگر مختصر اور جامع تعریف و تشریح بیان کی جائے ، تو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سے زیادہ جامع تشریح اور کوئی بیان نہیں ہو سکتی حضرت تھانوی (قدس سرہ) نے تو دریا کوزے میں بند کر دیا ہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ شرح صدر سے مراد علم اور حلم ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم کو دو خزانے عطا فرما دیئے۔

علم کا خزانہ

حلم کا خزانہ

علم مصطفوی یعنی سرکار دو عالم ﷺ کو منصب نبوت کے شایان شان جو علوم و معارف ہو سکتے تھے وہ اس کثرت سے عطا فر ما دیئے گئے کہ ان کو شمار کرنا کسی امتی کے بس کی بات نہیں !

نبوت کے علوم

شریعت کے علوم

طریقت کے علوم

معرفت خداوندی کے علوم

عبادت کے علوم

ریاضت کے علوم

تبلیغ کے علوم

تعلیم کے علوم

جہاد کے علوم

صحابہ کی تربیت کے علوم

ازواج مطہرات کی حیات طیبہ کے علوم

گویا کہ کوئی ایسا علم آپ سے دور نہیں رکھا گیا جو آپ کے منصب نبوت کے لئے ضروری تھا! اور کوئی ایسا علم آپ کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ جو منصب نبوت اور شان نبوت کے شایان نہیں تھا۔ مثلاً شعر کا علم نجوم کا علم، جادو کا علم غیب اور کہانت کا علم ۔ اے صاحبان علم ! تم علم مصطفوی کے بارے میں اگر ہمارا عقیدہ سننا چاہتے ہو تو ڈنکے کی چوٹ سن لو اور بیانگ دہل سن لو …. ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ جس طرح تمام انبیا علیہم السلام سے فضل و کمال میں زیادہ ہیں اسی طرح آپ علم میں بھی سب سے زیادہ اور سب سے اعلیٰ وارفع ہیں لیکن اتنے نکتے کو ذہن میں رکھنا آپ کے لئے بھی ضروری ہے کہ علم نبوی اور بات ہے علم خداوندی اور بات ہے اور علم غیب تو بالکل ہی اور بات ہے، ذرا تقریر کرتے وقت ، وعظ کرتے وقت الزام تراشی کرتے وقت علم غیب اور علم نبوی کی تمیز کو ذہن میں ملحوظ رکھتے ہوئے بات کیا کروتا کہ تمہارے علم کلام کا بھانڈا چورا ہے میں نہ ٹوٹے اور مسلمان تمہارے مکر وفریب کے فن سے محفوظ رہ سکیں ۔

حضرات گرامی!

علم نبوی کے متعلق تو آپ نے میری گذارش کو سماعت فرمالیا۔ اب حلم نبوی کے متعلق صرف دو واقعے عرض کروں گا جن سے آپ حضرات کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالی نے کس قدر حوصلہ اور حلم عطا فر مایا تھا۔

حلم نبوی ﷺ کے دو واقعے

حضور ﷺ کے حوصلہ اور حلم کا اندازہ آپ حضرات سفر طائف کے اس واقعہ سے لگائیں کہ جب آپ نے طائف کے مکینوں کو تو حید کی دعوت دی تو انہوں نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی ، آپ پر پتھروں کی بارش ہوئی، آپ کے پیچھے طائف کے مشرک سرداروں نے لڑکوں ، غلاموں اور بد معاشوں کو لگا دیا۔ سرکار دو عالم ﷺ جہاں تبلیغ کے لئے کھڑے ہوتے ہوں یہ سب شور وغل کرتے ، گالیاں دیتے اور پتھروں سے مارتے ۔ حضور ﷺ کے پاؤں مبارک لہولہان ہو گئے ۔ حضور ﷺ اسی زخمی حالت میں قرآن پاک سناتے رہے بالآخر بد معاش مشرکوں نے اس قدر مارا کہ آپ بے ہوش ہو گئے۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے (جو آپ کی رفاقت میں تھے ) آپ کے زخموں کو دھویا اور ٹھنڈے پانی کے چھینٹے چہرہ انور پر ڈالے ۔ حضور ﷺ کو غشی سے افاقہ ہوا تو حضرت زید نے روتے ہوئے عرض کیا یارسول ﷺ ان ظالموں کے لیے بددعا فرمائیے … اب سامعین کرام کلیجے پر ہاتھ رکھ کر پیغمبر کا حوصلہ اور حلم ملاحظہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں رحمت بن کر آیا ہوں زحمت بن کر نہیں آیا … سبحان الله) اور پھر بارگاہ ایزدی میں دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ) یعنی اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔

حلم اور حو صلے کا دوسرا واقعہ

فتح مکہ کے بعد قریش حضور ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو ان کو یقین تھا کہ اب محمد ﷺ ہم سب سے ماضی کے بدلے چکائے گا۔ ان کے دل خوف سے خون کے آنسورور ہے تھے ۔ ان کے جسموں پر کپکپی طاری تھی کہ حضور ﷺ نے ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے خطبہ سے فارغ ہو کر ظالم خونخوار سرداران قریش کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا؟ کہ اے قریشیو؟ تمہیں معلوم ہے کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ وہ خوف زدہ ہو گئے اور افسردگی ان کے چہروں سے ظاہر ہونے لگی۔ رحمت دو عالم ﷺ نے اس قدر حوصلہ مندی سے ان پر رحمت کی بارش فرمائی جو ایک نبوت کے علمبر دار ہی سے ممکن ہوسکتی ہے سبحان اللہ آپ نے فرمایا: ان اقول كما قال يوسف لا خوته لا تثريب عليكم اليوم فانتم الطلقاء) کہ آج میں تمہیں سے وہی کہتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ آج تم پر کوئی دارو گیر نہیں جاؤ آج میں تم سب کو چھوڑتا ہوں ۔ الم نشرح لگ صَدْ رَک) 

محترم حضرات! قرآن مجید کے مطالعہ کا جن لوگوں کو شوق ہے وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ بعض آیات کی تفسیر خود آیات قرآنی سے ہو جاتی ہے چنانچہ شرح صدر کی تشریح بھی اگر سمجھنی ہو تو قرآن مجید پر ایک نظر ڈالی جائے گی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِإِسْلَامِ . (سوره انعام) پس جس شخص کو اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔

اسی طرح سورہ زمر میں ارشاد فرمایا: أَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِّنْ رَّبِّهِ.) کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پھر وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے۔

ان آیات میں شرح صدر کا معنی نور اسلام کے علم سے سینہ کو منور کرنا ہے اور( رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِئ) جو حضرت موسیٰ کی دعا ہے۔ اس سے مراد نور علم کے ساتھ ساتھ حو صلے کی بلندی اور ناقابل تسخیر عزم کی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو علم اور حلم دو نعمتوں سے سرفراز فرمایا ارشاد فرمایا: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ) اس سے شق صدر بھی مراد لیا جا سکتا ہے، مگر اس مختصر خطبے میں اس کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے! وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ اور ہم نے آپ کا بوجھ اتار دیا۔ وزر ( یعنی بوجھ ) کیا تھا؟

مخلوق خدا کی فکر

توحید کی فکر

دین کی فکر

عرب کی اخلاقی پستیوں کی فکر

غیر اللہ کی عبادت میں مصروف مشرکین کی فکر

بچوں کو زندہ درگور کرنے والوں کے حشر کی فکر

یہ تھاوہ (وزر ) بوجھ اپنی قوم کی جہالت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حساس طبیعت پر پڑ رہا تھا۔ آپ کے سامنے بت پوجے جارہے تھے۔ مشرک اور مشرکانہ رسوم کا بازار گرم تھا۔ اخلاق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ظلم وستم کا دور تھا ، زور داروں کی زیادتیوں سے بے زور پس رہے تھے ، لڑکیاں زندہ دفن کی جارہی تھیں۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے تھے اور بعض اوقات سوسو برس تک انتظامی لڑائیوں کا سلسلہ چلتارہتا تھا، کسی کی جان ، مال ، آبرو محفوظ نہ تھی۔ یہ حالت دیکھ کر آپ کڑھتے تھے ۔ یہی فکر آپ پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے نبوت کا منصب آپ کو عطا فرما کر یہ پوچھا کہ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ) کہ کیا اور ہم نے آپ کا بوجھ اتار نہیں دیا۔ اور آپ کو بتا دیا گیا کہ توحید ورسالت اور آخرت پر ایمان ہی وہ شاہی کنجی ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی اس رہنمائی نے آپ کا سارا ذہنی بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے۔ اور مولیٰ کریم کا یہ انعام

(وضع وزر) آپ کی زندگی بھر کے لیے ایک انمول تحفہ ہو گیا۔ 

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرِكَ

محترم حضرات

آپ بتائیں اگر کوئی شخص صرف لا الہ الا اللہ پڑھتا رہے تو مسلمان ہو جائے گا نہیں جب تک محمد رسول اللہ نہیں پڑھے گا۔ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہوا کہ کلمہ حضور کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے، ذرا کوئی اذان دے تو اس کو دیکھیں کہ اگر وہ کہتا ہے

الله اكبر. الله اكبر

الله اكبر الله اكبر

اشهد ان لا اله الالله

اشهد ان لا اله الالله

حي على الصلوة حي على الصلوه

میں پوچھتا ہوں اذان ہوگئی؟ 

جواب ہرگز نہیں

کیوں نہیں ہوئی؟ 

اس لئے نہیں ہوئی کہ حضور ﷺ کا نام چھوڑ دیا گیا ہے۔

جب موذن نے کہا

اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ

تو اب بتائیے کہ اذان ہوگئی

جواب ہے ہاں ہو گئی، ہوگئی، ہوگئی کیوں ہو گئی ؟ اس لئے کہ میری آقا و مولی محمد ﷺ کا نام آگیا۔

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے نام کے بغیر اذان نامکمل وہ دیکھئے اذان کے بعد مکبر تکبیر کہ رہا ہے مکبر ۔

الله اكبر الله اكبر

الله اكبر. الله اكبر

اشهد ان لا اله الالله

اشهد ان لا اله الالله

حي على الصلوة حي على الصلوه

آپ فرمائیے تکبیر ہوگئی۔؟ 

نہیں ہوئی، نہیں ہوئی، ہرگز نہیں ہوئی

ارے بھئی کیوں نہیں ہوئی ؟

اس لیے نہیں ہوئی کہ اس نے حضور ﷺ کا نام چھوڑ دیا ہے۔

اچھا اب بتائے؟

مکبر کہتا ہے۔ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله

تکبیر ہوئی۔؟ ہوگئی ، ہوگئی ، یقیناً ہوگئی۔

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے نام کے بغیر اذان نامکمل، تکبیر نامکمل اور آگے بڑھیں، وہ دیکھیں

امام مصلے پر کھڑا نماز پڑھا رہا ہے

سُبْحَانَكَ اللهُم پڑھ لی

سورۃ فاتحہ پڑھ لی

سورۃ اخلاص پڑھ لی دورکعتیں مکمل کرلی

وہ دیکھیں بیٹھے بغیر کھڑا ہو گیا

السلام علیک چھوڑ گیا

وہ تیسری رکعت چھوڑ گیا

سلام پھیر دیا

نہ سلام پڑھا نہ درود

نماز ہوگئی؟ 

نہیں ہوئی، نہیں ہوئی، نہیں ہوئی

معلوم ہوا کہ تین رکعتیں پڑھیں اور سلام اور درود پڑھے بغیر چوتھی رکعت پوری کئے بغیر سلام پھیر دیا۔ اور حضور ﷺ کا ذکر مبارک دردو و سلام چھوڑ گیا۔ اس لیے نماز نامکمل ۔

وہ دیکھئے جنازہ پڑھایا جا رہا ہے

پہلی تکبیر کے بعد ثنا

دوسری تکبیر کے بعد دعا

میں آپ سے پوچھتا ہوں جنازہ ہو گیا۔ نہیں ہرگز نہیں۔

اس لیے کے درود چھوڑ دیا گیا۔

اور اگر پہلے ثناء 

اور پھر درود

اور پھر دعا

تو پھر جنازہ مکمل ہو جائے گا

معلو ہوا کہ جنازہ بغیر دورد کے نامکمل

قبر میں فرشتے آگئے

مَنْ رَّبُّكَ تیرا رب کون؟ 

مادینک تیرا دین کون سا؟ 

فرشتے بس اتنا پوچھ کر چل دیئے

میں پوچھتا ہوں ۔ سوال جواب مکمل یا نا مکمل؟ 

نامکمل، نامکمل

کیوں اس لئے کہ حضور ﷺ کے بارے میں سوال چھوڑ دیا گیا ہے! اگر فرشتے پوچھتے ہیں۔

مَنْ رَّبُّكَ تیرا رب کون؟ 

مادینک تیرا دین کون سا؟

ماتقول في حق هذا الرجل محمد ﷺ کہ تو اس آدمی محمد ﷺ کے متعلق کیا کہتا ہے۔؟ فيقول هذه هو عبد الله و رسوله

وہ کہے گا یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ﷺ ہیں تو جواب مکمل ہو جائے گا۔

حضرات گرامی!

کلمہ حضور ﷺ کے ذکر کے بغیر نامکمل

اذان حضور کے ذکر کے بغیر نامکمل

تکبیر حضور کے ذکر کے بغیر نامکمل

نماز حضور کے ذکر کے بغیر نامکمل

قبر کا سوال و جواب حضور ﷺ کے ذکر کے بغیر نامکمل

خلاصہ یہ کہ انسان اعضا کے بغیر نامکمل

اور ایمان مصطفیٰ ﷺ کے بغیر نامکمل

حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اذا ذكرت ذكرت معى) کہ اے محبوب جہاں میر اذ کر کیا جائے گا۔ وہیں آپ کا ذکر کیا جائے گا۔

کلمے میں پہلے میرا ذکر پھر تیرا ذکر

اذان میں پہلے میرا ذکر پھر تیرا ذکر

تکبیر میں پہلے میرا ذکر پھر تیرا ذکر

نماز میں پہلے میرا ذکر پھر تیرا ذکر

نماز جنازہ میں پہلے میرا ذکر پھر تیرا ذکر 

قبر میں پہلے میرا ذکر پھر تیرا ذکر

حشر میں پہلے میرا ذکر پھر تیرا ذکر

(وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ) اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کردیا) 

او لات و عزمی کے پجاریو۔

او! غیر اللہ کے چڑھاوے کھانے والو؟

او! شرک و بدعت کے علمبردارو!

او! اعمل ہبل کے نعرے لگانے والو؟

او! میرے مصطفے ﷺ کو تنگ کرنے والو؟

او! میرے محبوب پر اوجھڑیاں پھینکنے والو؟

او! میرے محبوب کو لہولہان کرنے والو؟

او! میرے محبوب کو شعب ابی طالب میں قید کرنے والو؟

او! میرے محبوب کا بائیکاٹ کرنے والو

او! میرے محبوب کو صابی کہنے والو

او! میرے محبوب کو مجنوں کہنے والو

تم مٹ جاؤ گے

تمہارے بت مٹ جائیں گے

تمہارے لات و عری مٹ جائیں گے

تمہارے مجاور اور گدی نشین مٹ جائیں گے

میرے محمد ﷺ کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرائے گا

عرب میں نبی یہ ہوگا

عجم کا نبی یہ ہو گا

شرق کا نبی یہ ہوگا

غرب کا نبی یہ ہو گا

شمال کا نبی یہ ہوگا

جنوب کا نبی یہ ہوگا

فرش کا نبی یہ ہوگا

عرش کا نبی یہ ہوگا

اولیا کا نبی یہ ہوگا 

اتقیا کا نبی یہ ہوگا

جبرائیل کا نبی یہ ہوگا

عزرائیل کا نبی یہ ہوگا

اسرافیل کا نبی یہ ہوگا

میکائیل کا نبی یہ ہوگا

انبیاء کا نبی یہ ہوگا

بلکہ مجھے کہنے دو خدارب المعا لعالمین ہے تو مصطفے رحمت العلمین ہے ۔ جہاں جہاں خدا کی خدائی کا ڈنکا بجے گا

وہاں وہاں میرے مصطفےٰ کی مصطفائی کا ڈنکا بجے گا

سبحان الله! (وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ) ۔

وَمَا عَلَيْنَا الَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينِ

Leave a Comment