ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریر

دوسرا خطبہ "ماہ ربیع الثانی” بعنوان "ساقی کوثر ﷺ” قرآن و حدیث کی روشنی میں” بسلسلہ "بارہ مہینوں کی تقریریں”
تمہیدی کلمات
ساقی کوثر ﷺ
نَحْمَدُه وَ نُصَلَّى عَلى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ فَاعْوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ. ترجمہ: یقیناً ہم نے تجھے ( حوض ) کوثر ( اور بہت کچھ ) دیا ہے ۔ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے ۔
حضرات گرامی: آپ نے یہ جملہ تو بارہا سنا ہوگا کہ "دو جہان کی نعمتیں” جب بھی کوئی کسی کو دعا دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی تجھے دونوں جہانوں میں خوش رکھے۔ یادوجہان کی نعمتیں عطا فرمائے۔ یہ دو جہاں کی نعمتیں“ کیا ہیں اور ان کا مفہوم کیا ہے اور کچھ نعتیں ایسی ہیں کہ جن کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔ اگر آسانی کے لیے ان نعمتوں کی تقسیم کرنا ہو تو اس طرح ان کا عنوان ہوگا۔
ا: دنیا کی نعمتیں
۲: آخرت کی نعمتیں
اللہ تعالی نے اپنے محبوب محمد ﷺ کو ان آیات بینات میں ارشاد فرمایا ہے: أَنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ) اے محبوب ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا۔ ایک ایسا لفظ ہے جس کے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے عربی ، اردو، فارسی، انگریزی، پنجابی زبانوں کے پاس کوئی متعین اور واضح لفظ نہیں ہے جس سے فورا سمجھ لیا جائے کہ کوثر کا یہ متبادل لفظ ہے اور اس سے اس کا مفہوم متعین ہو کر سامنے آجاتا ہے جس طرح اللہ تعالی کی ذات بے مثال ہے اسی طرح اس کا کلام بھی بے مثال ہے۔ کوثر . کے معنی خیر کثیر کے ہیں اب جس طرح کوثر کے معنی خیر کثیر کر دیئے گئے تو پھر لفظ خیر کثیر کا تقاضا ہے کہ اس کی تشریح کر کے اس کے معنی بھی بتا دیئے جائیں کہ خیر کثیر کسے کہتے ہیں۔ البحر المحیط میں چھبیس اقوال خیر کثیر کے معنی بتانے کے لیے نقل کئے گئے ہیں کہ خیر کثیر کے کہا جاتا ہے۔ اس لیے آپ حضرات کو سمجھائے کے لیے میں نے عرض کیا ہے کہ اگر دونوں جہان کی نعمتیں اس سے مراد لی جائیں تو بھی اس کا مفہوم حقیقی تو ادا نہیں ہوگا ۔ مگر ہماری ناقص عقلوں میں کچھ بات ضرور آجائے گی کہ اللہ تعالی اس مقام پر اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کو دونوں جہان کی نعمتوں سے سرفراز فرمانے کا وعدہ فرمارہے ہیں۔
دنیا کی نعمتیں
فرمایا: أَنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ) کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا۔ دنیا کی نعمتیں کیا ہیں؟ یا دنیا میں کون سی نعمتیں آپ کو عطا کی گئیں ۔ ان کا ذکر خیر بھی آپ حضرات سماعت فرمالیں۔
(1) جوامع الكلم
(2) دشمنوں پر رعب
(3) فتوحات کی کثرت
(4) نبوت
(5) علم
(6) حکمت
(7) کتاب
(8) کثرت امت
(9) جماعت صحابه
(10) خلق عظیم
(11) نظام اسلام مکمل ضابطہ حیات
(12) رفع ذکر
(13) زندگی میں اپنی کامیابی دیکھنا
(14) روئے زمین پر روحانی اولاد کی برکات
جو نعمتیں اس وقت شمار کی ہیں۔ اگر ان کا مفہوم اور مطلب بیان کیا جائے تو ایک ایک نعمت کا بیان ایک مستقل تقریر بن جائے گی ۔ جس کی گنجائش اس مختصر خطبے میں نہیں ہو سکتی اس لیے اگر حضرت نانوتوی بانی دیو بند کی زبان میں اس کا خلاصہ یوں بیان کر دیا جائے تو اس کی ایک جھلک سامنے آسکتی ہے کہ
یہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
تیرے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار
حضرات گرامی!
ختم نبوت کا تاج آپ کو دیا گیا۔
علم کا خزانہ آپ کو دیا گیا۔
شفاعت کا تاج آپ کے سر پر سجایا گیا
حکمت کے موتی آپ کے دامن میں ڈالے گئے
خلق عظیم کا پیکر آپ کو بنایا گیا
صحابہ کی مقدس ترین جماعت آپ کو عطا کی گئی
یوں سمجھ لیجئے
کتاب ملی کتابوں سے اعلیٰ
حکمت ملی حکمتوں سے اعلیٰ
نبوت ملی نبوتوں سے اعلیٰ
یار ملے یاروں سے اعلیٰ
خلق ملا اخلاق سے اعلیٰ (سبحان اللہ)
اے قریش؟
اے منکرین رسالت
اے شرک و بدعت کے دیوانو!
اے کعبہ کے مجاورو؟
اے بیت اللہ کے کنجی بردارو!
اے لات و عزیٰ کے پجاریو!
اے نذرونیاز پر پلنے والو!
تم میرے محبوب کی اولاد کے دنیا سے اٹھ جانے پر خوشیاں مناتے ہو! تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ میرے محمد ﷺ کی نرینہ اولا د ایک ایک کر کے وفات پا رہی ہے!
طیب فوت ہو گئے
طاہر فوت ہو گئے
ابراہیم فوت ہو گئے
تمہیں اس بات سے کیا سروکار
میں خدا وہ مصطفے
میں خدا وہ بندہ خدا
میں مسجود وہ ساجد
میں معبود وہ عابد
میں بے نیاز. وه نیازمند
میں مرضی والا وہ پابند
میں ہی بیٹے دینے والا ۔
میں اگر عطا کروں تو میری مرضی
اور میں ہی انہیں اگر واپس لے لوں تو میری مرضی
وہ جو چاہے تو قطرہ قطرہ کو سمندر کر دے
وہ جو چاہے تو یتیموں کو پیمبر کر دے
یہی فرق ہے خدا میں اور اس کے بندے میں کہ الله مختار ہوتا ہے. اور بندہ محتاج ہوتا ہے : وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَ يَخْتَارُ ) آپ کا رب جس چیز کو چاہتا پیدا کرتا ہے اور پسند کرتا ہے)
مشرک خوش ہوئے مگر
محترم حضرات! سرکار دو عالم ﷺ کے فرزندار جمند ایک ایک کر کے وفات پاگئے تو قریش نے ایک ہنگامہ پہا کر دیا (بتر محمد منا، (ابن جرير) کہ محمد ﷺ ہم سے کٹ گیا۔ یعنی محمد ﷺ اپنی قوم سے کٹ کر ایسے ہو گئے ہیں جیسے کوئی درخت اپنی جڑ سے کٹ گیا ہو۔ اور اب وہ کسی وقت بھی سوکھ کر پیوند زمین ہو سکتا ہے۔
محمد ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مکہ کے سردار عاص بن وائل سہمی کے سامنے جب رسول ﷺ کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتا ! اجی چھوڑ ومحمدﷺ کو وہ تو ایک جڑ کٹا آدمی ہے ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ ان کے مرنے کے بعد دنیا میں ان کا کوئی نام لینے والا نہیں رہے گا۔ (بتر محمد منا)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کعب ابن اشرف (مدینہ کا یہودی سردار تھا) مکہ مکرمہ آیا تو قریش کے سرداروں نے اس سے کہا: ان محمد اابتر لا ابن له يقوم مقامه مات انقطع ذكره واسختم منه. محمدﷺ ابتر ہیں ۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں جو ان کا قائم مقام بنے جب وہ مرجائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا ! اور ان سے تمہارا پیچھا چھوٹ جائے گا! ابو جہل، عقبہ، ابولہب، اور اس قماش کے مشرک یہی پھبتیاں کستے تھے۔ ابولہب جو آپ کا چچا تھا۔ وہ بھی زبان درازیوں میں برابر کا شریک رہتا سر کار دو عالم ﷺ کے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ کی جب وفات ہوئی تو ابولہب دوڑا ہوا اپنے احباب انجمن مشرکین مکہ لمیٹیڈ کے نمبروں کے پاس گیا اور ان کو یہ خوشخبری دی: بتر محمد الليلة) کہ آج رات محمد ﷺ لا ولد ہو گئے ۔ یا ان کی جڑ کٹ گئی۔ یہ تھے وہ انتہائی دل شکن حالات جن میں سورہ کوثر حضور ﷺ پر نازل فرما کر آپ کو تسلی دی گئی ۔ قریش مکہ اس لیے آپ سے بگڑے تھے کہ آپ صرف اللہ کی بندگی و عبادت کرتے تھے ۔ اور ان کے شرک اور معبودوں کو آپ نے علانیہ مسترد کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے پوری قوم میں جو مرتبہ اور مقام آپ کو نبوت سے پہلے ان کی نظر میں حاصل تھا۔ اب وہ احترام ان کی نظروں سے اٹھ گیا تھا۔ اور آپ گویا برادری سے کاٹ دیئے گئے تھے۔ اس پر مزید آپ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں رشتہ داروں قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کے بجائے خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ اور وہ باتیں بنائی جا رہی تھیں جو ایسے شریف انسان کے لیے دل تو ڑ دینے والی تھیں جس نے اپنے تو اپنے غیروں تک سے ہمیشہ انتہائی حسن سلوک کیا تھا اس پر اللہ تعالی نے اس لفظ کوثر میں وہ خوشخبری دی: إِنَّا عُطَيْنكَ الْكَوْثَرَ) جس سے بڑی پوری دنیا میں کوئی خوشخبری نہیں ہو سکتی(ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا) یعنی خیر کثیر
حضرات گرامی!
کسی کی موت پر خوشیاں منانا مشرکوں کا پرانا دستور ہے توحید والوں کو طعنے دینا مشرکوں کا پرانا دستور ہے
توحید والوں کے غم پر خوشیاں منانا مشرکوں کا پرانا دستور ہے
موحدین کی تعزیت نہ کر نامشرکوں کا پرانا دستور ہے
توحید والوں کو حقیر سمجھنا مشرکوں کو پرانا دستور ہے
توحید والوں کے استہزائیہ نام رکھنا مشرکوں کا پرانا دستور ہے۔
مثلا حضور ﷺ کو الصنبور المنبتر کہتے تھے۔
یعنی کمزور اور جڑ کٹا اور علمائے حق کو گستاخ اور وہابی کہتے ہیں۔ یہ بھی اپنے آباؤاجداد کی رسم کو تازہ کرتا ہے
اپنے کو سب کا سردار سمجھنا یہ مشرکوں کا پرانا دستور ہے۔
کعبے کا واحد مالک سمجھنا گدی نشین سمجھنا نذرونیاز اور چڑھاوے ہڑپ کرنا یہ ان کا پرانا دستور ہے۔ زبان کے تیروں سے ہنسی سے اور آوازیں کس کر موحدین کوستانا یہ شرکین کا پرانا دستور ہے۔
موحدین کی بھی ایک تاریخ ہے
مشرکین کی بھی ایک تاریخ ہے
موحد خدا کی پوجا سے باز نہیں رہ سکتا
مشرک من دون اللہ کی پوجا سے باز نہیں رہ سکتا رذالت کا دامن نہیں چھوڑ سکتا۔ شرافت کا دامن نہیں چھوڑ سکتا
تیری جدا پسند ہے میری جدا پسند ہے
تجھ کو خودی پسند ہے مجھ کو خدا پسند
لطف کی بات ہے، مشرک موحد کو جتنا ستائے گا اللہ کو اپنے موحد بندے پر اتنا ہی رحم زیادہ ہے آئے گا۔
حضرات گرامی! میں نے آپ حضرات کے سامنے اب تک جو گزارشات پیش کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ کہ ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمایا۔ خیر کثیر کن نعمتوں کا نام ہے ان کا تفصیل سے آپ حضرات کے سامنے ذکر کر دیا ہے۔ اب ایسی نعمتیں جود نیاوی زندگی میں عطا کر دی گئیں ایسی نعمتیں جو آخرت میں عطا کی جائیں گی۔ جو نعمتیں دنیا میں عطا کر دی گئیں ہیں۔ ان کا ذکر تو آپ نے سن لیا ہے۔ اب جو نعمتیں آخرت میں عطا فرمائی گئیں۔ ان کا ذکر بھی سماعت فرمالیں۔ إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ) اے محبوب ہم نے آپ کو کوثر عطا فر مایا۔ یعنی دو نعتیں ایسی ہیں جو آپ کو آخرت میں دی جائیں گی!
ان دو نعمتیں کا نام حوض کوثر اور نہر کوثر ہے۔
اخروی نعمتیں
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ، ان نعمتوں کا بھی ذکر کر دوں جو آخرت میں عطا کی جائیں گی اور ان کو بھی علمائے کرام اور مفسرین عظام نے خیر کثیر میں شمار فرمایا ہے۔ اب اگر آپ توجہ سے میری گزارشات کو سن رہے ہیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے تقریر کے ابتدا میں عرض کر دیا تھا کہ نعمتیں دو قسم کی ہیں۔
حوض کوثر کی نعمت اللہ تعالیٰ سرکار دو عالم ﷺ کو محشر کے دن عطا فرمائیں گے۔ یہ نعمت صرف اور صرف حضور ﷺ کی ذات گرامی کو عطا فرمائی جائے گی ! اور اس چشمہ فیض سے کروڑوں اربوں کھر بوں اللہ کے بندے فیض یاب ہوں گے ! حوض کوثر کے متعلق کثرت سے احادیث میں روایات آتی ہیں جن میں حوض کوثر کی حقیقت اس کا وجود، اس سے سیراب ہونے والوں کی کیفیات اور نوعیت کا علم ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات کے سامنے چند احادیث کا تذکرہ کر دیا جائے ۔ تا کہ آپ بھی اس چشمہ محمدی ﷺ سے اپنی پیاس بجھا سکیں ۔
(1) سرکار دو عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: هو حوض ترد عليه امتى يوم القيامة ( مسلم ، ابو دائود) وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے دن وارد ہوگی !
(2) انا فرطكم على الحوض ( بخاری ) کہ میں تم سے پہلے اس پر پہنچا ہوا ہوں گا۔
(3) حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو ہریرہ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: انى فرط لكم و انا شهيد عليكم وانى والله لا نظر الى حوضی آلان (بخاری) میں تم سے آگے پہنچنے والا ہوں اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں !
(4) ایک مرتبہ آپ نے انصار کو خطاب کر کے فرمایا: انكم ستلقون بعدى اثرة فاصبر و احتى تلقو اني على الحوض. کہ میرے بعد تمھیں نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑے گا تم اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ تمہاری ملاقات میرے ساتھ حوض پر ہو!
(5) سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: بینا رسول الله الله بين اظهر نا في المسجد اذ اغفى اغفاء ة ثم رفع راسه متبسماً قلنا ما اضحكلك يا رسول الله قال لقد انزلت على انفاً سورة فقرا بسم الله الرحمن الرحيم . انا اعطينك الكوثر ثم قال اتدرون ما الكوثر قلنا الله و رسو له اعلم قال فانه نهر وعد نيه عزوجل خير كثيراً وهو حوض ترد عليه امتى يوم القيامة أنية عدد نجوم في السماء فيختلج العبد منهم فاقول رب انه من امتى فيقول انک لا تدرى ما احدث بعدك (بخاری، مسلم، ابو داؤد) کہ ایک روز جب کہ حضور ﷺ مسجد میں ہمارے پاس تھے اچانک آپ پر ایک قسم کی نیند کیفیت طاری ہو گئی۔ پھر ہنستے ہوئے آپ نے سر مبارک اٹھایا ۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت ایک سورۃ نازل ہوئی ہے پھر آپ نے بسم اللہ کے ساتھ سورۃ کوثر پڑھی۔ پھر فرمایا تم جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا میرے رب نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہے جس میں خیر کثیر ہے اور وہ حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز پانی پینے کے لیے آئے گی! اس کے پانی پینے کے بر تن آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے۔ اس وقت بعض لوگوں کو فرشتے حوض سے ہٹا دیں گے تو میں کہوں گا کہ میرے پروردگار یہ تو میری امت میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعات گھڑ لی تھیں۔ ایک دوسری حدیث میں تو بہت ہی درد ناک الفاظ آتے ہیں ۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : الا واني فرطكم على الحوض واكاثر بكم الا مم فلا تسود و اوجهى الا وانی مستنقذ انا ساً ومستنقذ اناس منى فاقول يا رب اصحابی . فيقول انك لا تدرى ما احد ثو ابعدك ( ابن ماجه) کہ خبر دارر ہو میں تم سے آگے حوض کوثر پر پہنچا ہوا ہوں گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ اس وقت مجھے رسوا نہ کرانا ! خبر دار ہو کچھ لوگوں کو میں چھڑاؤں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے۔ میں کہوں گا۔ اے پروردگار یہ تو میری امت کے ساتھی ہیں، وہ فرمائیں گے تم نہیں جانتے انہوں نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کئے ہیں۔
حضرات گرامی! حوض کوثر حضور کو روز محشر ملے گا۔ امت مصطفے ﷺ اس حوض پر پیش ہوگی۔ اس حوض پر برتن آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہوں گے ۔ سرکار دو عالم ﷺ اپنی امت کی کثرت کی وجہ سے حوض کوثر پر فخر کرئیں گے! پوری امت حوض کوثر سے فیض یاب ہوگی ؟
لیکن دو طبقے دو گروه دو پارٹیاں دو جماعتیں حوض کوثر کے شیریں اور سکون بخش جام سے محروم رہیں گی! وہ بد قسمت، بدنصیب اور ازلی بد بخت کون ہوں گے؟ اور وہ دو جماعتیں کون سی ہیں؟
دشمن صحابه اور مبتدعین
جی ہاں! دشمن صحابہ سرکار دو عالم ﷺ کے اصحاب سے بغض اور عناد رکھنے والے اور صحابہ پر سب وشتم کرنے والے اور ان پر زبان طعن دراز کرنے والے حوض کوثر سے اس لیے محروم ہو جائیں گے کہ اس روز ساقی کوثر کے چیف سیکرٹری حوض پر سیدنا صدیق اکبر ہوں گے!
جیسا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے سیدنا صدیق اکبر کو ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا: انت صاحبي على الحوض ورفيقي في الجنة. تو حوض پر میرا ساتھی ہوگا اور جنت میں میرار فیق ہو گا! دشمن صحابہ چونکہ صدیق کے حضور جانے کی ہمت نہیں پاتے ویسے بھی انہوں نے غار پر جانے کے بعد قسم اٹھا رکھی ہے کہ اب صدیق اکبر کا سامنا نہیں کرنا۔
چنانچہ روضہ انور پر حاضری کی سعادت سے محروم ہیں اور یہ ان کو مشق کرائی گئی ہے کہ تم نے صدیق کے سامنے نہیں ہونا ورنہ پکڑے جاؤ گے اس لئے ہمیشہ روضہ انور پر مواجہہ شریف سے دور رہتے ہیں ۔ یہ مشق ان کے کام آئے گی۔ اس لئے دشمنانِ صحابہ کو جب علم ہوگا کہ نبی تو اب بھی حوض کوثر پر صدیق اکبر کو ساتھ لیے کھڑے ہیں یہ بیچارے محروم القسمت واپس ہولیں گے! انہیں ہی بد قسمت کہا جاتا ہے انہیں ہی بد نصیب کہا جاتا ہے انہیں ہی بد بخت کہا جاتا ہے
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا”
اس لئے عدوئے صحابہ کا گر وہ حوض کوثر سے محروم رہے گا۔ دوسرا گروہ مبتدعین کا ہوگا
رسم ورواج کے کارخانوں کا ہوگا
بدعت ساز فیکٹریوں کے ڈائریکٹروں کا ہوگا
چونکہ چنانچہ کہنے والے حیلہ سازوں کا ہوگا
حرج کیا ہے؟ کے فقرہ سازوں کا ہوگا
سنت کے مقابلے میں بدعات قائم کرنے والوں کا ہوگا
اپنے مسئلے بنا کر ان پر ثواب دارین کے لیبل لگانے والوں کا ہوگا
انبیاء واولیا بنا کر لیبل لگا کر اپنی دکانداری چمکانے والوں کا ہوگا
ایسے لوگوں کو بدعتی کہا جاتا ہے! اور بدعتی وہ ہوتا ہے جو دین میں اپنی طرف سے کوئی نئی بات بنا کر داخل کر دے اور اس کے ثواب کی پرچیاں تقسیم کرتا پھرے اور کہے کہ اس مسئلہ پر عمل کرنے والا جنتی ہو گا اور اسے چھوڑنے والا جہنمی ہو گا! اس بدعتی کے پاس اس مسئلہ کی سند نہ تو قرآن سے ہوگی۔ نہ سنت مصطفوی سے ہوگی۔ اور نہ ہی اصحاب رسول کے عمل سے ہوگی ۔
اور اس نوعیت کی بیسیوں من گھڑت اور ایجاد بندہ قسم کی بدعات جن کا ثبوت نہ تو قرآن میں ملتا ہے اور نہ ہی رسول ﷺ سے ملتا ہے اور نہ ہی آثار صحابہ اور عمل صحابہ کرام سے ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے بلکہ جب ثبوت مانگا جائے تو بجائے دلائل پیش کرنے کے قاتلانہ حملے، گالی گلوچ ، دنگا فساد پر اتر آتے ہیں اور دلائل کی دنیا میں بالکل ہی بے دست و پا نظر آتے ہیں۔ اس قماش کے مبتدعین جب حوض کوثر پر پیش ہوں گے تو حضور فرما ئیں گے ۔ اس قماش امتی اصحابی … اصحابی اللہ تعالیٰ کی طرف سے (یحال بینی و بینهم) کہ ان کے اور حضور ﷺ کے درمیان ایک پردہ کر دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اے محبوب : انک لا تدرى ما احد ثوا بعدك) کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کس قدر تغیر و تبدل کر دیا تھا۔ اس لئے حکم ہوگا سُحقاً سُحقاً. لمن بدل بعدی) کہ دوری ہے دوری ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے میرے بعد تبدیلی کی )۔ اب بدبختوں کو میرے سامنے سے دور کر دیا جائے اور ان کو فرشتے الٹے منہ جہنم میں داخل کر دیں گے۔
برادران محترم! ان احادیث حوض سے معلوم ہوا کہ بدعات کرنے والے اس قدر سرکارِ دو عالم ﷺ اور خدا کی ذات کو نا پسند ہوں گے کہ ان کو حوض کوثر سے دھکے دے کر واپس کیا جائے گا۔ اس لئے آپ حضرات کو جہاں احیائے سنت اور ان پر عمل کرنے کو زیادہ ترجیح اور اہمیت دینی چاہیے وہیں مبتدعین اور ان کی مروجہ بدعات سے بھی اعراض اور نفرت کرنی چاہیے۔ کیونکہ سرکار دو عالم ﷺ نے جہاں سنت کو مضبوطی سے پکڑنے اور اس پر عمل کرنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ وہیں پر بدعت سے نفرت اور اہل بدعت سے نفرت کرنے پر بھی شدت سے تاکید فرمائی ہے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: من وقر صاحب بدعة فقد اعان على هدم الاسلام (مشكوة) کہ جس شخص نے بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔
سیدنا حذیفہ سرکار دو عالم ﷺ سے روایت کرتے ہیں: قال رسول الله الله لا يقبل الله لصاحب بدعة صوماً ولا صلاة ولا صدقة ولا حجاً ولا عمرة ولا جهاداً ولا صرفا ولا عد لا يخرج من الاسلام كما تخرج الشعرة من العجين (ابن ماجه) آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بدعتی کا نہ روزہ قبول کرتا ہے اور نہ نماز قبول کرتا ہے، نہ حج ، نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ کوئی فرضی عبادت قبول کرتا ہے اور نہ ہی نوافل … بدعتی اسلام سے ایسے خارج ہو جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔
دوسری نعمت نہر کوثر ہوگی
نہر کوثر اور کوثر آپس میں گہری مربوط ہیں چنانچہ حدیث میں آتا ہے جنت کی نہر سے ( حوض کوثر ) میں پانی ڈالا جائے گا۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: فيه ميزابان يمد انه من الجنة (مسلم) یعنی اس ( حوض کوثر ) میں جنت سے دو نالیاں لا کر ڈالی جائیں گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں گی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ کوثر کیا ہے آپ نے فرمایا ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں عطا کی ہے۔ اس کی مٹی مشک ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ (ترمذی)
حضرات محترم! میں نے آپ کے سامنے کوثر اور اسکا صحیح مفہوم تفصیل سے عرض کیا ہے اب مناسب ہوتا ہے کہ آگے بڑھیں اور فصل لربک وانحر) پس نماز پڑھ اپنے رب کے لئے اور قربانی کر ۔ کا مفہوم بھی گوش گزار کرتا چلوں!
اللہ تعالیٰ نے کوثر میں اپنی بے شمار نعمتوں کی عطا کا وعدہ تھا۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر میں شکرانہ نعمت کی تیاری کا حکم دیا ہے اب سوال ہوتا ہے کہ شکرانہ نعمت کیا ہے؟ بدنی قربانی بدنی قربانی کی انتہا کیا ہے نماز؟ نماز کی انتہا کیا ہے سجدة؟ سجدہ کی انتہا کیا ہے؟ اپنی جبین نبوت کو زمین پر رکھ کر یار کومنانا۔ یہ پیروں فقیروں کے نام پر قربانیاں دیتے ہیں۔ اے محبوب آپ خالصتاً اپنے داتا رب العلمین کے حضور قربانی دے! جان کا نذرانہ بھی میرے حضور پیش کر اور مال کا نذرانہ بھی میرے حضور پیش کرو ۔
وما علینا الا البلاغ المبین