حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب

تیسرا خطبہ "جمادی الأول ” بعنوان "حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب ” قرآن و حدیث کی روشنی میں "بسلسلہ”بارہ مہینوں کی تقریریں”
تمہیدی کلمات!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
نَحْمَدُه وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ: عن بن عقبه عامر قال قال النبي ﷺ لو كان بعدى نبى لكان عمر بن الخطاب . (ترمندی) اگر میرے بعد کسی نے نبی ( ہونا ہوتا تو وہ ) عمر ہوتے۔
حضرات گرامی: آج میں نے آپ کے سامنے سرکار دو عالم ﷺ کی ایک حدیث پڑھی ہے۔ اس حدیث میں سید نا عمر فاروق کی عظمت اور فضلیت بیان فرمائی گئی ہے جس سے آپکا درجہ اور منصب رفیع سامنے آتا ہے ۔ یوں تو قرآن و حدیث پر نظر ڈالی جائے تو سیدنا فاروق کی سینکڑوں اور ہزاروں عظمتوں کا سراغ ملتا ہے مگر تمام محاسن اور خوبیوں کو بیان کرنے کے لیے ایک وسیع وقت کی ضرورت ہوتی ہے جسے جمعہ کے اس مختصر وقت میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے آج کے خطبہ میں مختصر طور پر پانچ باتوں کا ذکر کیا جائے گا۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں تقریباً بیس یا بائیس مقامات ایسے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات جو بات حضرت سیدنا فاروق فرش پر کہتے تھے، وہی بات عرش سے قرآن بنا کر نازل فرما دی جاتی تھی۔ گویا کہ بار ہا قرآن حضرت عمر کی رائے کے مطابق نازل ہوا۔ ان بیس یا بائیس مقامات سے اس وقت پانچ واقعات کا تفصیل سے ذکر کرتا ہوں، تا کہ آپ حضرات کو حضرت فاروق اعظم کی عظمت اور رفعت شان معلوم ہو جائے ۔
حضرات گرامی: جب کوئی مسلمان حج کے لیے جاتا ہے تو وہاں پر ایک عبادت ہر حاجی کو کرنا ہوتی ہے۔ اس عبادت کو شریعت کی زبان مین طواف کہتے ہیں۔ طواف بیت اللہ شریف کے اردگرد گھومنے اور چکر لگانے کا نام ہے۔
حاجی خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔
عالم ہو یا غیر عالم
امیر ہو یا فقیر
عابد ہو یا زاہد
ولی ہو یا نبی
سب کو طواف کرنا پڑتا ہے اور سب کو سلے سلائے کپڑے اتار کر احرام کی دو چادریں پہن کر: لبیک اللهم لبیک لبیک اللهم لبیک لا شریک لک لبیک) ننگے سر اور ننگے پاؤں بیت اللہ شریف کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کی کبریائی کا اعتراف واقرار کرنا پڑتا ہے۔
پہلا تاریخی واقعہ
حضرات گرامی! ذرا تصورات کی دنیا میں چلئے جہاں سرکار دوعالم ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ طواف فرمارہے ہیں، سرکار دو عالم ﷺ طواف کر رہے ہیں اور صحابہ بھی ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے مانگ رہے ہیں ۔ التجا ہورہی ہیں درخواستیں دی جارہی ہیں ۔ مراد یں مانگی جارہی ہیں۔ اور نہایت ہی عاجزی اور انکساری سے خدا کے گھر کا طواف کیا جارہا ہے ۔ بار بار چکر لگائے جارہے ہیں ۔ سرکار دو عالم ﷺ اور صحابہ کرام اپنے مولا کے گھر کے ارد گرد بار بار چکر لگا رہے ہیں تا کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ ہم تو اسی کے دروازے پر بار بار آتے ہیں۔ ہمارا تو یہی داتا ہے یہی مشکل کشا ہے۔
جب سرکار دو عالم ﷺ نے طواف کے سات چکر پورے فرما لیے تو آپ نے حضرت فاروق کو وہ پتھر دکھلایا جس پر حضرت ابراہیم نے کھڑے ہو کر بیت اللہ شریف کی تعمیر فرمائی تھی اور آپ کے قدموں کے نشان اس پتھر پر ثبت ہو گئے تھے۔(سبحان الله) حضرت فاروق نے عرض کیا حضور؟ میرادل چاہتا ہے کہ میں اس مقام پر دو نفل شکرانے کے ادا کروں؟ سرکار دو عالم ﷺ خاموش ہیں؟ کیوں خاموش ہیں ؟ اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش مانوں تو ابھی تک میرے پاس یہاں نقل پڑھنے کا علم الہی نہیں پہنچا اور رسول ﷺ تو وحی الہی کا پابند ہوتا ہے۔ وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى) اور اگر فاروق کی خواہش پوری نہیں ہوتی تو ان کی دل شکنی ہے
جبرائیل آئے ! میرے محبوب اداس کیوں ہیں؟ عمر کہتا ہے کہ یہاں دو نفل ادا کروں گا۔ اور میرے پاس اس کی اجازت نہیں آئی۔ اور جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں کہ حضور ﷺ پریشان نہ ہوں! جو رائے اور خواہش عمر کی فرش پر ہے۔ وہی رائے اور خواہش خدا کی عرش پر ہے۔
خدا فرماتے ہیں: واتَّخِذُوا مَنْ مَّقَامِ إِبْرِ اهِهُم مُصَلَّى (بقره) اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ)
حاجیو؟
آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ طواف کے بعد
ولی ادھر جا رہا ہے
قطب ادھر جا رہا ہے
مجددا دھر جا رہا ہے
محدث ادھر جا رہا ہے
مفسر ادھر جا رہا ہے
پیرا دھر جا رہا ہے
فقیر ادھر جا رہا ہے
عالم ادھر جا رہا ہے
چھوٹا ادھر جا رہا ہے
بڑا ادھر جا رہا ہے
بادشاہ ادھر جا رہا ہے
وزیر ادھر جا رہا ہے
سنی ادھر جا رہا ہے
شیعہ ادھر جا رہا ہے
ذران سے پوچھو ادھر کیوں جا رہے ہیں؟ آواز آتی ہے سنت عمر ادا کرنے.. مقام ابراہیم پر ہر حاجی کو جانا ہوگا، سنت عمر ادا کرے گا تو حج منظور ہو گا، ور نہ حج ناقص، حج نامکمل، حج نامسعود، عمر تیرے قربان جاؤں تو نے اسلام کی عمر کو تازگی بخشی خدا نے تیری سنت کو قیامت تک اپنے گھر کے سامنے زندہ رکھا۔ مَنْ كَانَ لله ، كَانَ الله لَهُ جو اللہ کا ہو جاتا ہے اللہ اس کا ہو جاتا ہے)
حضرات گرامی! یہ مرتبہ اور مقام سیدنا فاروق کی ذات گرامی کوخود اللہ تعالی کی ذات نے عطا فرمایا ہے: واتخذوا من مقام ابراهيم مصلى) جو رائے عمر کی فرش پر وہی رائے خدا کی عرش پر (سبحان اللہ)
دوسرا تاریخی واقعہ
حضرات گرامی! سرکار دو عالم ﷺ ہجرت فرما کر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ایک تاریخی منصوبہ بنایا اور پھر اس سازش اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میدان بدر میں وہ مکروہ اور بزدلانہ ہتھکنڈے استعمال کئے جو رہتی دنیا تک ان کے مکروہ عزائم کی تصویر کشی کرتے رہیں گے ! غزوہ بدر پہلی جنگ عظیم ہے جس میں سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے تین سو تیرہ بے مثال و عدیم النظیر صحابہ کے ساتھ جاں نثاری اور فداکاری کی وہ مثال پیش فرمائی جو دنیائے عزیمت و استقلال میں اپنا جواب آپ ہے۔ کفر کو اللہ تعالیٰ نے تاریخی شکست دی۔ اور سرکار دو عالم ﷺ کے مشن اور آپ کی عظمتوں کو دوبالا کر دیا۔ بدر میں صحابہ نے جنگ کا میدان گرم کیا ! اور حضور ﷺ نے اپنے گرم آنسوؤں سے نصرت خداوندی کو پکارا ! فرشتے سپاہی بن کر آئے نوری بشر کی قیادت میں میدان کارزار میں اترے جبرائیل غلامی کے لیے حاضر ہوا! دعائے رسول ﷺ کام آئی صدیق نے رسول ﷺ کو سجدہ سے اٹھایا تو آواز آئی: وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍو انْتُمْ اَذِلَّةٌ . ( آل عمران) اللہ نے تمہاری مددفرمائی حالانکہ تم کمزور تھے ۔ بدر میں اللہ تعالی نے حضور ﷺ کو ایک عظیم الشان فتح سے سرفراز فرمایا اور مشرکین مکہ کو ایسی عبرتناک اور ذلت آمیز شکست سے دو چار کیا اور ان کی تمام تدبیر میں الٹی ہوگئیں ۔ اور قریش کے اکڑے ہوئے اور سرکشی پر تلے ہوئے قیدیوں کو ہمراہ لیکر مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے ۔ مدینہ منورہ میں قیدی حضور ﷺ کی عدالت میں پیش کئے گئے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے وزیروں سے اپنے مشیروں سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
مسجد نبوی ہی اسمبلی ہال تھا
مسجد نبوی ہی چیف جسٹس کا آفس تھا
مسجد نبوی ہی سٹیٹ گیٹ ہاؤس تھا۔
مسجد نبوی ہی قصر صدارت تھا۔
مسجد نبوی ہی قرآن وسنت کی یو نیورسٹی تھی
مسجد نبوی ہی. عبادت وریاضت کا مرکز تھا
مسجد نبوی ہی انوارات خداوندی کا مرکز تھا
مسجد نبوی ہی پوری دنیا کے لیے مرکز ہدایت تھا
مسجد نبوی ہی جبرائیل امین کی آمد ورفت کا مرکز تھا
مسجد نبوی میں وہ تمام خوبیاں اور محاسن تھے جو آخری پیغمبر کے لیے اللہ کی طرف سے عطا کئے گئے تھے…
اسی مسجد بنوی میں بدر کے قیدیوں کو رکھا تھا
ان کو قید کر کے سزا د نیا مقصود نہیں تھا
ان کو قید کر کے خدا کی توحید بتلانا مقصود تھا،
ان کو قیدا کر کے مقام مصطفی دکھانا مقصود تھا
ان کو قید کر کے صدیق کا صدق و وفا دکھانا مقصود تھا
ان کو قید کر کے عمر کا جلال دکھانا تھا
ان کو قید کر کے صدیق صدق دکھانا مقصود کا
ان کو قید کرکے عثمان کی حیادکھانا مقصود تھا
ان کو قید کرکے علی کی وفادکھانا مقصود تھا
ان کو قید کرکے صحابہ کے سجدے دکھانا مقصود تھا
اور تہجد کے وقت آہ وفغاں دکھانا مقصود تھا
دلوں میں کئی قیدیوں کے اسلام کا توحید کا بیج بویا گیا۔
اور وہ رنگ لایا۔ اور کئی قیدی اسی اثر سے بعد میں مسلمانوں ہوئے، سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ ان کی نسلیں مسلمان ہو کر آپ کے دامن رحمت سے وابستہ ہو جائیں گی اور ان کو بھی اس احسان کے بعد ندامت ہوگی؟ حضرت علی نے بھی یہی کہا۔ اور اکثر صحابہ نے بھی یہی رائے دی اور سرکار دو عالم ﷺ نے تمام صحابہ کرام کی اسی رائے کو پسند فرما کر یہی رائے دی ۔ لیکن فاروق اعظم کو دیکھا تو وہ خاموش تھے۔ فرمایا عمر تو کیوں خاموش ہے؟ فرمایا عمر تیری کیا رائے ہے؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ! یا رسول الله! میری رائے یہ ہے کہ خدا کی توحید کا دشمن اور حضور ﷺ کی رسالت کا دشمن خدا کی دھرتی پر ایک بھی نظر نہ آئے، ان کا وجود خدا کی زمین پر بوجھ ہے ۔ عمر کا رشتے دار عمر کے حوالے کیا جائے۔ عمر کی تلوار ہوگی اور اس دشمن خدا اور دشمن رسول ﷺ کی گردن ہوگی ۔ حضور واللہ میں اس کی گردن قلم کر کے حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا…
ابو بکر اپنے رشتے دار کے ساتھ یہی سلوک روارکھے
على اپنے رشتے دار کے ساتھ یہی سلوک روارکھے
جس کا رشتہ دار کافر ہے وہ اس کے حوالے کر دیا جائے تا کہ نہ ر ہے بانس نہ بجے بانسری۔
حضرت فاروق اعظم کی اس رائے سے ایمان و یقین اور تو حید ورسالت کی محبت و عظمت کا وہ جذ بہ نظر آتا ہے ۔ جس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نظر نہیں آتی۔ چونکہ سرکار دو عالم ﷺ دوسرے صحابہ کی رائے کو پسند فرما چکے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ اس لیے حضرت عمر کی رائے کو قبول نہیں فرمایا گیا۔ سرکار دو عالم ﷺ اور صحابہ کرام کی رائے کے مطابق فیصلہ ہو گیا کہ اسیران بدر سے فدیہ لے کر ان کو رہا کر دیا جائے ۔ جبرائیل امین کو حکم ہوتا ہے کہ جبرائیل جاؤ اور میرے محبوب سے فرما دو کہ سب آپ کے ساتھ، رب عمر کے ساتھ (سبحان الله) جو فیصلہ عمر کا فرش پر ہے وہی فیصلہ خدا کا عرش پر ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُشْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ. ( پاره ۱۰ سوره انفال ) نبی کی شان کے لائق نہیں کہ اس کے قیدی باقی رہیں ۔ جب تک وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی نہ کرلے تو دنیا کا مال اسباب چاہتے ہو! اور اللہ تمہارے لئے آخرت کو چاہتا ہے! اور اللہ بڑا قوت والا ہے حکمت والا ہے۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے وقت سرکار دو عالم ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر گر یہ طاری تھا اور حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا: لونزل عذاب من السماء مانجا منكم غير عمر) اگر بالفرض آسمان سے خدا کا غضب نازل ہوتا تو عمر کے سوا اس سے کسی کو رستگاری نہ ہوتی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ البغض فی اللہ کی زندہ و تابندہ تصویر تھا۔ ان کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ خدا کے لیے جینا اور خدا کے لیے مرنا ۔
تیسرا تاریخی واقعہ
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنی قربانی اور حضور سے بے پناہ عقیدت و محبت کے پیش نظر تمام صحابہ کرام میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ آپ کو سرکار دو عالم ﷺ سے جہاں اور سینکڑوں نسبتیں ہیں وہیں پر آپ کا خسر نبی ہونا ایک بہت بڑی فضیلت اور بہت ہی اعزاز اور عظمت ہے۔
حضرت عائشہ امت مسلمہ میں وہ واحد اور منفر د خاتون ہیں جن کو پیغمبر اسلام کے ساتھ تعاون اور خدمت میں ایک انفرادی شرف حاصل ہے۔ سید ناصدیق اکبر جہاں حضور ﷺ کے جلوت کے گواہ تھے اسی طرح حضرت سیدہ عائشہ حضور ﷺ کی خلوت کی گواہ تھیں آج کی اصطلاح میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ صدیق اکبر رسول ﷺ کے چیف سیکرٹری تھے تو سیدہ صدیقہ حضور ﷺ کی ہوم سیکرٹری تھیں۔ خارجی امور کا انچارج صدیق اکبر تھے تو داخلی امور کی انچارج صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔
ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ غزوہ نبی مصطلق سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں قافلے کو پڑاؤ کا حکم دے دیا۔ قافلہ رات بھر وہیں ٹھہرا رہا۔ حضرت عائشہ اس سفر میں رسول ﷺ کے ہمراہ تھیں۔ صبح کے وقت آپ قضائے حاجت کے لیے جنگل کی طرف نکل گئیں ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ آپ کے گلے کا ہار وہیں ٹوٹ کر گر پڑا ۔ جس کی تلاش کے لیے آپ کو کچھ دیر ہوگئی اور ادھر سرکار دو عالم ﷺ نے قافلے کو روانہ ہونے کا حکم دے دیا۔ قافلہ رخصت ہو گیا۔ نہ تو حضور ﷺ نے حضرت عائشہ کے کجاوے کو دیکھا اور نہ ہی کجاوہ اٹھا کر اونٹ پر رکھنے والوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ اس کجاوے میں حضرت عائشہ موجود نہیں ہیں ۔ قافلہ روانہ ہو گیا تو حضرت عائشہ بھی جنگل سے واپس پہنچ گئیں مگر قافلے کو اپنے مقام پر موجود نہ پا کر آپ کو بے حد صدمہ ہوا اور پریشانی ہوئی مگر اس وقت کیا کیا جاسکتا تھا۔ آپ نے دل ہی میں دل میں فیصلہ فرما لیا کہ مجھے اسی جگہ بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے جب حضور ﷺ کو معلوم ہوگا کہ میں کجاوہ میں نہیں ہوں تو وہ ضرور میری تلاش کے لیے صحابہ کو بھیجیں گے ۔ اس طرح میں آپ کے ساتھ پھر جاملوں گی چنانچہ آپ اسی مقام پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرمانے لگیں ادھر سے حضرت صفوان ابن معطل کا گزر ہوا جو اس غرض سے قافلہ کے پیچھے رکھے گئے تھے ۔ کہ قافلہ کی روانگی کے بعد جو گری پڑی چیز قافلے کی ملے ،وہ اسے لیتے آئیں۔ حضرت صفوان جو نہی اس درخت کے قریب پہنچے تو انہوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا تو زور سے (انا لله وانا اليه راجعون پڑھا) حضرت عائشہ یہ آواز سن کر بیدار ہوگئیں۔ حضرت صفوان نے اونٹ حضرت عائشہ کے قریب بٹھا دیا اور آپ اُس پر سوار ہو گئیں ۔ نہ ہی حضرت عائشہ کو حضرت صفوان نے پوچھا کہ آپ کیسے پیچھے رہ گئیں اور نہ ہی حضرت عائشہ نے ان سے کوئی بات کی ۔ حضرت صفوان مادر امت کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اور ادھر جب قافلہ رسول ﷺ مدینہ کے قریب پہنچا تو سر کار دو عالم ﷺ نے کجاوے کو دیکھا تو حضرت عائشہ وہاں نہیں تھیں آپ کو بے حد فکر ہوئی ۔ آپ نے صحابہ کرام کو ان کی تلاشی کے لیے روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی صحابہ روانہ ہو ہی رہے تھے کہ دور سے کسی سوار کو آتا دیکھا، قریب آنے پر معلوم ہوا کہ آنے والا صفوان صحابی رسول ﷺ ہے۔ اور سواری پر سوار ما در امت سیدہ طاہرہ حضرت عائشہ ہیں ۔ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ سے قافلے سے بچھڑ جانے کا پوچھا تو سیدہ طاہرہ نے پوری تفصیل سے واقعہ بیان کر دیا۔
ادھر منافقین کا طوفان بدتمیزی اسی قدر بڑھ گیا کہ حاسدین کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ جو آتش حسد ہی میں جل بھن مرتے رہتے ہیں ۔ خاندان صدیق کو جو اعزاز اور عظمت خدا اور رسول ﷺ کے ہاں میسر آئی تھی ۔ منافقین اس پر سیخ پا ہوتے تھے ہر وقت جلتے تھے اور مختلف تدبیریں سوچتے رہتے تھے کہ کسی طرح عائشہ نبی ﷺ میں جدائی ڈال دی جائے، منافقین مدینہ نے بالخصوص اور مشرکین نے بالعموم اس بات کا بتنگڑ بنا کر سیدہ عائشہ پر الزام لگایا کہ (معاذ اللہ) آپ کا کردار درست نہیں ہے، اس تہمت اس بہتان عظیم کو اس قدر ہوادی کہ پورا مد ینہ افسردہ خاطر ہو گیا اور حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کے دل زخمی ہو گئے اور گھر گھر میں غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے،
سرکار دو عالم پریشان و غمزده
صدیق اکبر پریشان و غمزده
صحابہ کرام پریشان و غمزده
على پریشان و غمزده
پریشانی صرف اس بات کی تھی کہ تہمت لگانے والوں نے کس قدر اخلاق باختگی اور کمینگی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ایک ایسی عفیفہ پر ناپاک تہمت اور الزام عائد کیا ہے جس سے دامن صداقت کو بھی حیا آگئی، سرکار دو عالم ﷺ نے صحابہ سے پوچھا؟ میری عائشہ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ وہ عفیفہ ہے
حضرت علی نے کہا عائشہ پاکیزہ ہے
ابوایوب انصاری نے کہا عائشہ کا دامن صاف ہے
زینب نے کہا کہ عائشہ کا دامن پاک ہے
جب صحابہ نے اپنی رائے دے دی تو میری آقا نے سیدنا فاروق اکبر سے پوچھا؟ عمر آپ کی رائے میری عائشہ کے بارے میں کیا ہے؟ فاروق اعظم! بولے حضور ﷺ آپ یہ فرمائیں کہ (من زو جكها؟) آپ کا نکاح کس نے کرایا ہے؟ میں نے؟ صدیق نے ؟ کسی اور نے ؟ من زو جكها؟ فرمایا: اللہ نے) عرض کیا کہ پھر اللہ ایسا نہیں ہے کہ نبی پاک ہو اور بیوی ناپاک ہو: سُبْحَانَك هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٍ (سورة نور) پاک ہے تو اے اللہ یہ بہت بڑا بہتان ہے) اللہ نے فرمایا جبرائیل! لبیک یا جلیل ! فرما یا جلدی جاؤ اور میرے رسول ﷺ سے فرما دو کہ میں عائشہ کے حق میں فیصلہ دینا ہی چاہتا تھا۔ کہ اب عمرؓ نے فیصلہ دے دیا ہے میں اس کے لفظوں میں نہ اضافہ کرتا ہوں اور نہ ترمیم۔ عرش پر خدا کا جو فیصلہ ہے فرش پر وہی فیصلہ عمر کا ہے : سُبْحَانَك هَذَا بُهْتَانْ عَظِيمٍ (سورة نور) سبحان اللہ! سید نا فاروق اعظم کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے الفاظ کو قرآن بنا کر نازل فرما دیا گیا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی
چوتھا تاریخی واقعہ
عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین جب بیمار ہوا تو رحمت دو عالم ﷺ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے ۔ اس منافق نے آپ کی اس شفقت رسالت کو دیکھ کر درخواست کی کہ جب میں مرجاؤں تو آپ میری نماز جنازہ خود پڑھائیں۔ آپ نے اس کی یہ بات سن کو سکوت فرمایا نہ ہی ہاں کہا اور نہ ہی انکار کیا۔ آپ جب عیادت سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو منافقین نے ایک قاصد کو سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں بھیجا کہ آپ اپنا کرتہ مبارک مجھے عنایت فرما دیں تا کہ مجھے اس میں کفن دیا جائے ۔ آپ نے از راہ رحمت اس قاصد کے ہاتھ اپنا کرتا مبارک بھیجوا دیا ۔ جب اس منافق کے پاس وہ کرتا پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ مجھے تو وہ قمیض چاہیے جو آپ کے بدن مبارک کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ آپ نے اس کی خواہش پر اپنی قمیص اتار کر دے دی۔
حضرت عمر نے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ آپ کی قمیص اس منافق کے لیے عطا کرنی مناسب نہیں ہے تو آپ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اے عمر میری یہ قمیص اس منافق کے لے تو فائدہ مند ثابت نہ ہوگی۔ البتہ اس سے اس کی قوم پر اچھا اثر پڑے گا اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب عبداللہ ابن ابی فوت ہوا تو اس کے فرزند نے ( جو اسلام لا چکے تھے ) حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے والد کا جنازہ آپ پڑھا دیں ۔ آپ نے جنازہ پڑھانا منظور فرمایا۔ چنانچہ آپ جب جنازہ پڑھانے کے لیے روانہ ہونے لگے تو حضرت عمرؓ آپ کے سامنے ہو گئے اور نہایت ہی ادب اور نیاز مندی سے عرض کیا: یا رسول الله على عدو الله؟ حضور ﷺ کیا آپ ایک دشمن خدا کا جنازہ پڑھانے جائیں گے؟ یعنی حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ اس دشمن خدا ورسول ﷺ کا جنازہ سرکار دو عالم ﷺ نہ پڑھائیں اس پر فوراً وحی الہی لے کر جبرائیل امین نازل ہوئے اور حکم خداوندی سنایا: وَلَا تُصَلِّ عَلَى اَحَدٍ مِنْهُم مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ ط إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِه پاره ۱۰ سوره توبه) اور نماز نہ پڑھ ان میں سے کسی پر جو مر جائے اور کبھی نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر اور وہ منکر ہوئے اللہ کے اور اس کے رسول ﷺ کے !
معلوم ہوا کہ جو فیصلہ عمر کا فرش پر ہے وہی فیصلہ خدا کا عرش پر ہے (سبحان اللہ)
پانچواں تاریخی واقعہ
سرکار دو عالم ﷺ نے جب ایام علالت میں صحابہ کرام سے قلم دوات طلب فرمائی تھی تو سیدنا فاروق اعظم نے جواب میں عرض کیا تھا: حسبنا کتاب اللہ) اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے) چونکہ آپ کو صحابہ کا امتحان مقصود تھا۔ اس لیے آپ نے حضرت فاروق اکبر کا صحیح جواب سن کر سکوت فرمایا۔
معلوم ہوا کہ جو رائے عمر کی تھی وہی رائے رسول ﷺ کی تھی آخر ایسا کیوں نہ ہو حضرت عمر بھی تو عطائے خدا تھے دعائے مصطفے تھے ۔
حضرات گرامی : اس وقت میں نے صرف پانچ واقعات آپ حضرات کے سامنے بیان کیے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جو رائے عمر کی فرش پر ہوتی تھی وہی رائے خدا کی عرش پر ہوتی تھی اور حضرت سیدنا فاروق اعظم کی زبان مبارک سے ادا شدہ جملے بعض اوقات قرآن بنا دئے گئے اللہ تعالی ہم سب کو سید نا فاروق اکبر کی عظمت دلوں میں قائم کرنے کی توفیق دے(آمین)
وَمَا عَلَيْنَا الَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينِ