حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے فضائل

دوسرا خطبہ "جمادی الثانی” بعنوان "حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب” قرآن و حدیث کی روشنی میں "بسلسلہ”بارہ مہینوں کی تقریریں”
تمہیدی کلمات!
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
نَحْمَدُه وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نعم المرء بلال و المو ذنون اطول الناس اعناقا يوم القيامة . نبی ﷺ نے فرمایا کہ خوبی والا مرد بلال ہے اور قیامت کے دن سب سے لمبی گردن والے مؤذن ہوں گے ۔
عن ابن عمر قال بشرت بلا لا فقال لى يا عبد الله بما تبشرني فقلت سمعت رسول الله الا الله يقول يجيى بلال يوم القيامة على ناقة ر جلها من ذهب و زمامها من لؤلؤ ويا قوت معه لواء يتبعه المو ذنون فيد خلهم الجنة حتى انه ليدخل من اذن اربعين صباحا يريد بذ الك وجه الله تبارک و تعالی(رواه الطبرانی) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے بلال کو بشارت دی تو بلال نے مجھے کہا کہ اے عبداللہ کس بات کی مجھ کو خوش خبری دے رہے ہو، تو میں نے جواب دیا کہ میں نے خود رسول سے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ قیامت کے دن بلال ایک ایسی اونٹنی پر آئے گا کہ جس کے پاؤں سونے کے ہوں گے اور باگ موتیوں اور یا قوت کی ہوگی ۔ بلال کے پاس جھنڈا ہوگا، تو تمام موذن بلال کے پیچھے پیچھے ہوں گے اور سب کو جنت میں پہنچادیں گے۔ حتی کہ وہ موذن آپ کی اقتدا میں جنت پہنچ جائے گا، جس نے محض اللہ کی خوشنودی لے لیے چالیس دن صبح کو اذان دی تھی ۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
حضرات گرامی : آج کے خطبہ میں عاشق رسول موذن مصطفے اسلام کی عظیم شخصیت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی سیرت طیبہ اور حیات مقدسہ بیان کی جائے گی، تاکہ آپ کی زندگی کے سنہری اور قابل رشک واقعات سے ہماری زندگی سنور جائے اور آپ کے ذکر سے ہمارے دلوں کو بھی تو حید اور عشق رسالت کی روشنی مل سکے!
حضرت سیدنا بلال حبشہ کے رہنے والے خاندان کے چشم و چراغ تھے آپ اس دور غلامی میں امیہ بن خلف کے غلام تھے اور وہیں پر بکریاں چرانے کی ڈیوٹی دیتے تھے! آپ کی سیرت طیبہ اور حیات مقدسہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
مصدق اول رسول
منتظم بیت رسول
منتظم بیت خدا یعنی موذن رسول
غلاموں کا سر اونچا کر دیا
سرکار دو عالم ﷺ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو پورے عرب میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ہر طرف آپ کی آواز کو دبانے اور آپ کی ذات گرامی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بننے لگے مگر..
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا”
سیدنا بلال ایک دن غار حرا کے قریب بکریاں چرار ہے تھے کہ اچانک ادھر سے آواز آئی کہ اے چراو ہے؟ کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟ یہ آواز دینے والے حضرت محمد ﷺ تھے جو اپنے رفیق حضرت صدیق کے ساتھ غار حرا میں موجود تھے ۔حضرت بلال آپ کی آواز سن کر سرکار دو عالم ﷺ کے قریب آئے اور عرض کیا کہ میری بکریوں میں کوئی بکری دودھ دینے والی نہیں ہے اس لیے میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں آپ کی خدمت نہیں کر سکوں گا۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو سامنے والی بکری کو دیکھ لیا جائے ہو سکتا ہے اس سے دودھ مل جائے! حضرت بلال نے تعجب سے کہا کہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ ایک دودھ نہ دینے والی بکری سے دودھ حاصل کر لیا جائے ! فرمایا! اجازت دینا تیرا کام دودھ دینا اللہ کا کام
یوں ہی بکری کو حضرت بلال نے لا کر پیش کیا ۔ آپ نے اللہ کا نام لے کر دوہنا شروع کیا تو بکری کے تھنوں سے دودھ کے چشمے جاری ہو گئے ! دودھ برتن میں آتا گیا اور ایمان بلال کے سینے میں اترتا گیا ! یہ پہلا دن تھا کہ بلال کے دل میں سرکار دو عالم ﷺ کی محبت گھر کرگئی اور آپ دل ہی دل میں حضور ﷺ کے ہو گئے ! (ابن عساکر)
دوسرے اور تیسرے روز بھی آپ اسی اشتیاق و محبت سے بکریاں وہیں لے گئے اور آنحضرت ﷺ کو دودھ پلایا۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ! اللہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت بلال تو پہلے ہی گرویدہ ہو چکے تھے ۔ یہ سنتے ہی دل و جان سے لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دامن رسالت کے ساتھ وابستہ ہو گئے ! اس طرح حضرت بلال نے غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کر کے تمام کائنات میں غلاموں کا سراونچا کر دیا ۔
دور عشق و مستی ، بے پناہ مظالم
سیدنا بلال حبشی نے غلاموں میں سب سے پہلے کلمہ پڑھا۔ اس لیے آپ کو غلاموں کی صف کا مصدق اول رسول کہا جائے گا۔ اس غلام کے کیا کہنے! جس کی نسبت غلامی اب ایک ایسی ذات گرامی سے قائم ہوگئی جس کی غلامی پر شہنشاہ بھی فخر کرتے ہیں! حضرت بلال جو نہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں ابو جہل اور امیہ بن خلف کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ انہوں نے حضرت بلال کو وہ اذیت ناک اور شرم ناک اذیتیں پہنچائیں کہ انسانیت کے منہ پر ندامت سے پسینہ آ گیا! دو پہر کے وقت جب کہ دھوپ تیز ہو جاتی اور پتھر آگ کی طرح تپنے لگتے تو امیہ بن خلف غلاموں کو حکم دیتا کہ بلال کو تپتے ہوئے پتھروں پر لٹا کر سینہ پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا جائے تا کہ جنبش نہ کر سکیں اور پھر امیہ حضرت بلال کو مخاطب ہو کر کہتا کہ تو ایسے ہی مر جائیگا۔ اگر نجات چاہتا ہے تو محمد ﷺ کا انکار کر دے اور لات و عزی کی پرستش پر لوٹ آ، لیکن بلال کی زبان سے احد احد کا ترانہ بلند ہوتا (اصابہ) کبھی گائے کی کھال میں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیا جاتا اور کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھا دیا جاتا ۔ اس تکلیف کی شدت میں بھی زبان سے بے اختیار احد، احد پکارتے
ایک دفعہ امیہ نے آپ کے عزم و استقلال کو دیکھ کر لڑکوں کو بلایا اور حضرت بلال کے گلے میں رسی ڈال کر ان کو تھما دی کہ جاؤ اسے مکے کی گلیوں میں جانوروں کی طرح کھینچتے پھرو تا کہ اس کو احد، احد پکارنے کا مزہ آجائے،
مگر جفا جو عشق میں ہوتی وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ تو محبت کا کچھ مزا ہی نہیں
آپ کی زبان مبارک سے پھر احد احد کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں مکہ کی گلیاں گواہ ہیں کہ اس عاشق رسول اور موحد اعظم کی آواز کو ظلم و تشدد اور دھونس اور دھاندلی سے دبایا نہیں جاسکا۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خنده زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا
ایک دن ابو جہل، امیہ بن خلف اور اس کے بد قماش غنڈوں نے حضرت سیدنا بلال کو اس قدر پیٹا کہ تمام بدن لہو لہان ہو گیا ۔ آخر تھک ہار کر کہنے لگے کہ تجھے آخری وارننگ ہے کہ کلمہ چھوڑ دے ۔ ورنہ جان سے مار دیا جائے گا۔ آپ نے زخموں سے چور چور جسم کی حالت میں فرمایا کہ اے بتوں کے پجاریو مجھے جان سے مارڈالو، مگر میرے جسم کے انگ انگ سے کلمے کی تاثیر نہیں نکال سکو گے۔
صدیق کی نظر پڑ گئی
سیدنا بلال نے اپنے ترانہ توحید سے پوری وادی مکہ میں ایک زلزلہ برپا کردیا مشرکین مکہ نے پوری قوت سے ظلم و تشدد سے اور شرمناک ہتھکنڈوں سے آپ کی آواز کو دبانا چاہا۔ مگر اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے
حضرت بلال کی آتش درد اور احد احد کی صدا سے پوری وادی مکہ سراپا درد سوز میں ڈوب گئی۔ ظلم وستم ڈھانے والے دب گئے ۔ ان کے اعم جواب دے گئے ، مگر سید نا بلال کے عشق و مستی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ حضرت سیدنا بلال اگر چاہتے تو اپنا ایمان مخفی رکھ سکتے تھے اور اس اخفا کی وجہ سے کفار کی ایذا رسانی سے محفوظ رہ سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت نے کلمہ توحید ظاہر کرنے پر انہیں مجبور کر دیا اور نعرہ احد لگانے پر عشق حقیقی نے انہیں مضطرب و بے قرار کر دیا !
ایک دن حضرت ابو بکر صدیق اس طرف گزرے اور حضرت بلال اسی خستہ و خراب لہولہان حالت میں، احد احد کا نعرہ لگارہے تھے ۔ یہ آواز سن کر حضرت صدیق اکبر گھڑے ہو گئے اس آواز میں حضرت صدیق اکبر کو بوئے محبوب حقیقی محسوس ہوئی جس سے آپ محولذت ہو گئے ۔ حضرت بلال کی اس مظلومیت کو دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق کا دل تڑپ گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ انہوں نے حضرت بلال کو سمجھایا کہ تنہائی میں اللہ کا نام لیا کرو اس موذی کے سامنے ذرا مخفی کر لیا کرو تا کہ اس کے جوروستم سے محفوظ رہ سکو! حضرت بلال نے عرض کیا کہ اے صدیق۔ یہ میرے بس کی بات نہیں لیکن آپ کے ارشاد کے پیش نظر آزماکر دیکھتا ہوں۔ لیکن زبان پر احد، احدا جاری ہو چکا تھا ، وہ دبائے سے نہیں دبتا تھا۔ دوسرے دن وہی حالت پھر صدیق اکبر نے دیکھی کہ حضرت سیدنا بلال احد، احد پکارتے ہیں اور کا فرمشرکین ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جسم سے خون کے فوارے جاری ہیں۔ اس دردناک منظر کو دیکھ کر آپ تڑپ گئے اور حضرت بلال کو پھر نصیحت فرمائی ۔
حضرت صدیق اکبر نے متعدد بار نصیحت فرمانے کے باوجود جب ہر بار یہی جذ بہ عشق و مستی دیکھا کہ وہ یہودی ظلم کر رہا ہے اور حضرت بلال احد ، احد کا نعرہ لگارہے ہیں تو اس ماجرے کو محبوب رب العالمین ﷺ کے سامنے پیش کیا ! حضرت بلال کے مصائب کو سن سرکار دو عالم ﷺ کی آنکھیں درد سے اشکبار ہو گئیں۔ ارشاد فرمایا کہ اے صدیق! پھر کیا تدبیر ہے کہ اس بلال کو اس بلا نجات ملے ، حضرت صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اس کو خرید لیتا ہوں تو سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھا تو بلال کی خریداری میں میری بھی شرکت ہوگی۔ حضرت صدیق اکبر تشریف لے جاتے ہیں تو دیکھا کہ حضرت بلال کے ساتھ وہی سلوک ہورہا ہے ۔
ان بلا لا اخذ اهله فمطوه والقو عليه من البطحاء و جلد بقره، فجعلوا يقولون ربك الات و الغرى ويقول احد احد ، قال فاتى عليه ابوبكر فقال علام تعذبون هذا لا نسان قال فاشتراه فذكر ذالك للنبی و فقال الشركة يا ابا بكر طبقات ابن سعد ج (۳) حضرت بلال کو ان کے مالکوں نے پکڑا اور زمین پر گرایا اور وادی بطحاء میں سے ایک پتھر اور گائے کا چمڑا بلال پر ڈال دیا ، پھر کہہ رہے تھے کہ تیرا رب لات اور عزی ہے حضرت بلال احد کا جواب دے رہے تھے (اسی حالت میں ) حضرت ابو بکر کا گزرہوتا ہے تو فرمایا کہ کیوں تم نے بلال کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کو خرید لیا اور اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابو بکر بلال کی خریداری میں بھی شریک ہوں۔ کیا مقام تھا حضرت بلال کا کہ خود رسول ﷺ ان کو خریدنے کا ارشادفرمارہے ہیں اور خود اس خریداری میں شریک ہونا چاہتے ہیں ۔ سبحان اللہ اس کالے جسم میں اللہ کی محبت سے ایسا نورانی دل تھا کہ بارگاہ رسالت بھی اس کی خریدار ہوگئی ، حضرت سید ناصدیق اکبر اس ظالم کے پاس گئے تو اس وقت بھی وہ حضرت بلال کو زدو کوب کر رہا تھا! حضرت ابو بکر کا یہ منظر دیکھ کر دل بھر آیا اور امیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ الا تتقى الله في هذا المسكين حتى متى انت) کہ تو اس مسکین کے بارے میں خدا سے نہیں ڈرتا ۔ آخر یہ ظلم و ستم کب تک؟ امیہ نے کہا کہ تم ہی نے اس کو خراب کیا ہے ۔ اور اب تم ہی اس کو چھڑاؤ۔ صدیق اکبر نے سودا کر لیا سید ناصدیق اکبر نے امیہ سے کہا کہ میرے پاس ایک نہایت ہی خوبصورت غلام ہے وہ تو لے لو اور مجھے یہ حبشی کالا غلام دے دو ۔ امیہ نے پوچھا سچ کہتے ہو یا مذاق کرتے ہو! کہاں آپ کا خوبصورت حسین و جمیل غلام اور کہاں یہ کالا حبشی غلام۔ صدیق اکبر نے کہا میرے غلام کا تن اجلا دل کالا
تیرے غلام کا تن کالا من اجلا، اس لیے مجھے یہ تمام جہان سے سستا ہے۔ صدیق اکبر نے فرمایا کہ سفید جسم اور کالے دل والا میر ا غلام تو لے لے اس کے بدلے کالے جسم اور روشن دل والا یہ حبشی غلام مجھے دے دے ۔
حضرت صدیق اکبر حضرت بلال کو لیکر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا سول اللہ ﷺ میں نے کیسا سودا کیا۔ سفید جسم اور کالا دل دے آیا ہوں کالا جسم اور نورانی دل لے آیا ہوں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بہت اچھا سودا کیا ہے تم نے اے صدیق مجھے بھی شریک کیا ہوتا ؟ سبحان الله) عرض کیا کہ حضور ﷺ میں نے تو اسے خرید کر آزاد بھی کر دیا۔ سرکار دو عالم ﷺ نے حضرت بلال کو پاس بلا کر اپنے سینہ مبارک سے لگا لیا۔ سیدنا صدیق اکبر کے اس سودے کے دھوم مچ گئی۔
حضرات گرامی! ان تمام تفصیلات سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا بلال نے اسلام کے ابتدائی دور میں ہی کلمہ پڑھ کے توحید کا بول بالا کر دیا اور اسلامی دستور حیات کے لیے وہ قربانیاں دیں کہ بالآخر خدا اور مصطفے کے ہاں وہ بلند بالا مقام حاصل کیا کہ آج تک دنیائے عشق و محبت میں آپ کا نام گونج رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ جب معراج شریف کے لیے گئے تو وہاں بھی بلال کے قدموں کی آواز سنی !
معراج کی رات
جو خدا آج انسان کو اس قدر عقل و شعور عطا کر سکتا ہے کہ انسان کی آواز کو ایک لوہے کی مشین میں ریکارڈ کر دے۔ وہ خدا سیدنا بلال کے قدموں کی آواز کو بھی ریکارڈ کر کے اپنے محبوب کو سنا سکتا ہے: ليس ذالک علی الله بعزیز)
عن ابي امامة قال قال رسول الله الله ) انی ادخلت الجنة فسمعت خشفة بين يديه فقلت يا جبرائيل ما هذه الخشفة فقال بلال يمشى اما مک . (مجمع الزوائد ج ج ۳)
حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو میں نے اپنے آگے قدموں کی آواز سنی تو جبرائیل سے پوچھا کہ اے جبرائیل یہ آواز کیا ہے تو عرض کیا کہ بلال کے آگے چلنے کی آواز ہے! معلوم ہوا کہ عظمت بلال اور شان بلال دکھلانے کے لیے جنت میں حضرت بلال کے چلنے کی آواز اپنے پیغمبر کو اللہ نے سنادی۔ یہ نتیجہ تھا ان قربانیوں کا جو حضرت بلال نے مسئلہ تو حید کو بیان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی سے حاصل کیا تھا!
منتظم بیت رسول
حضرات گرامی! ہجرت کے بعد سرکار دو عالم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دور دراز سے دامن رسالت سے وابستہ ہونے کے لیے کشاں کشاں مدینہ منورہ حاضری دینے لگے ۔ ان آنے والوں میں اکثریت اسلام اور دین سیکھنے کے لیے آتے تھے ۔ قبائل اور مہمانان رسول ﷺ کی آمد کی وجہ سے ان کے قیام و طعام کی ذمہ داری براہ راست سرکار دو عالم ﷺ کی ذات گرامی سے متعلق ہوتی تھی۔ اس لیے آپ نے مہمانوں کی خاطر مدارات اور اپنے گھر کے تمام انتظامات کا ناظم اعلی حضرت سید نابلال کو بنا دیا۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
حضرت سیدنا بلال اس فریضہ کو نہایت احسن طریقہ سے ادا کرتے بعض اوقات ایسے ایسے مفلوک الحال اشخاص قبول اسلام اور تفہیم اسلام کی خاطر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے کہ ان کے لیے کھانا مہیا کرنے کے علاوہ کپڑے کا انتظام کرنا پڑتا اور ان ضرورتوں کو عام طور پر مال غنیمت یا ہدیوں وغیرہ سے پورا کیا جاتا ورنہ قرضہ بھی اٹھایا جاتا اور جو آمدنی کی صورت تھی ۔ وہ بھی واضح تھی ۔
عبد اللہ ہوزنی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال موذن رسول ﷺ سے حلب میں ملاقات کی اور آپ سے دریافت کیا کہ اے بلال ؟ فرمائیے سرکار دو عالم ﷺ کے گھر کے اخراجات کا کیا حال تھا۔ حضرت بلال نے جواب دیا کہ آپ کے پاس کوئی مستقل انتظام نہ تھا۔ میں ہی تھا جو بعثت سے لے کر وفات تک اس امر پر متمکن تھا جب کبھی کوئی مسلمان آدمی آپ کی خدمت میں آتا تو آپ اسے ننگا مفلوک الحال دیکھ کر مجھے حکم دیتے ، میں ادھر ادھر سے انتظام کر کے چادر خرید کر اسے پہناتا اور کھانا کھلاتا حتی کے مشرکین میں سے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ اے بلال میں بہت مالدار ہوں۔ آپ میرے سوا کسی اور سے قرضہ نہ لیا کریں۔ میں نے اس سے قرضہ لے لیا جب قرضہ ادا کرنے کا دن آیا تو میں ایک دن نماز کے لیے اذان دینے کو کھڑا ہو ہی رہا تھا کہ وہ مشرک نجار کی ایک جماعت لے کر آ موجود ہوا۔ اس نے مجھے دیکھ کر نہایت درشت انداز میں کہا کہ اے حبشی! میں نے جواب دیا.. جی ہاں اس نے مجھے تر شروئی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ایک لینے کے وعدے کے درمیان کس قدر زمانہ باقی رہ گیا ہے۔ میں نے کہا کہ قریب ہی ہے اس نے کہا کہ تمہارے قرضہ ادا کرنے میں صرف چار یوم باقی رہ گئے ہیں۔ اس لیے میرا قرضہ ادا کرنے کی کوشش کرو، ورنہ میں تمھیں پکڑ کر بکریاں چرانے پر لگا دوں گا ، جس طرح تم اسلام لانے سے پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے ۔ میں یہ سن کر پریشان ہو گیا اور سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول ﷺ جس مشرک سے میں نے قرضہ لیا تھا۔ اس نے اس طرح مجھے کہا ہے، نہ تو آپ کے پاس اس کا قرضہ ادا کرنے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی میرے پاس کچھ ہے ۔ اگر اجازت ہو تو میں باہر کسی علاقہ میں چلا جاؤں اور قرضہ ادا کرنے کے لیے محنت مزدوری کر کے کچھ کمالاؤں ۔ اس طرح اس کی سختی سے بچ جاؤں گا۔ حضرت بلال فرماتے ہیں کہ میں رسول ﷺ سے یہ گزارش کر کے واپس آگیا اور اپنا سامان تیار کر کے پاس رکھ لیا تا کہ صبح کے نمودار ہوتے ہی محنت مزدوری کے لیے کہیں باہر چلا جاؤں۔
خدا نے انتظام کر دیا
سیدنا بلال ابھی باہر جانے کا ارادہ فرماہی رہے تھے کہ ایک شخص یا بلال کہتا ہو دوڑ کر آرہا تھا۔ اس نے کہا کہ اے بلال آپ کو رسول ﷺ بلا رہے ہیں ۔ میں فوراً حاضر ہوا تو دیکھا کہ چار اونٹ سامان سے لدے ہوئے حضور ﷺ کے ہاں بیٹھے تھے میں اجازت لے کر اندر داخل ہوا تو سر کا ردو عالم ﷺ نے فرط مسرت میں فرمایا کہ اے بلال مبارک ہو! اللہ تعالی نے آپ کے پاس آپ کے قرضہ اتارنے کے لیے سامان بھیج دیا ہے۔ یہ چار اونٹ سامان سے لدے ہوئے ہیں جاؤ یہ آپ کے لیے ہیں ان کے سامان سے تمام قرضہ ادا کر دو اور باقی مانده سامان غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دو ۔ اس طرح سیدنا بلال بیت رسول کے انتظامات کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوئے۔
حضرات گرامی!
بلال کا غم قدرت کو منظور نہیں تھا !
بلال بیت رسول کا منتظم تھا تو خدا رسول کی عظمت کا محافظ تھا!
یونہی بلال غمگین ہوا خدا نے اس کا غم دور کر دیا
اپنے خزانے سے بلال کے لیے راحت کا سامان مہیا کر دیا۔
مَنْ كَانَ لِلهِ كَانَ الله لَهُ
بلال بیت رسول کا منتظم تھا
بلال بیت رسول کا خزانچی تھا
بلال بیت رسول کا امین تھا
بلال بیت رسول کا خادم تھا
رسول کی راحت بلال کی راحت تھی
بلال رسول ﷺ کی مسرت تھی
بلال رسول کے دکھ اور سکھ کا ساتھی تھا
منتظم بیت خدا موذن رسول ﷺ
حضرات گرامی : جب حضرت بلال نے کلمہ طیبہ میں پہل کی اور توحید کے ترانے کو بلند کرنے میں پہل کی تو سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے گھر کی خدمت بھی حضرت بلال کے سپر دفرمائی اور اللہ کے گھر کی خدمت بھی حضرت بلال کے سپر دفرمائی ۔ چنانچہ بیت رسول ﷺ کا منتظم بھی حضرت بلال کو بنایا اور بیت خدا یعنی مسجد نبوی کی خدمت اور اذان جیسا اہم فریضہ بھی آپ کے سپرد فرمایا اور یہ کیوں نہ ہوتا۔ آخر حضرت بلال نے توحید کا نعرہ اس وقت بلند کیا۔ جب ہر طرف خاموشی تھی تو سرکار دو عالم ﷺ نے اذان کی خدمت بھی حضرت بلال کے سپر دفرمائی تا کہ تکبیر کا نعرہ جب تک بلال موجود ہے یہی بلند کرتا رہے۔
اذان بلال
اسلام کے شعائر میں اذان کی بہت عظمت ہے اس اسلامی نشان کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے نگاہ نبوت نے جس مرد کامل کو منتخب فرمایا وہ سیدنا بلال کی ذات گرامی تھی۔ آپ کی آواز میں بلا کا سوز تھا ۔ آواز اس قدر بلند تھی کہ پورا مدینہ آپ کی اذان سے گونج اٹھتا۔ یہ خدا کی دین تھا کہ اپنے محبوب کو ایسا موذن دیا جس کی آواز سے مکہ بھی گونجا اور مدینہ بھی یہ ثمرہ تھا اس احد احد پکارنے کا جس نے مکہ کی زمین ان نعروں سے توحید کی مٹھاس سے لبریز کر دی تھی ! آج فیصلہ ہو گیا کہ جس کا امام وخطیب کملی والا ہوگا۔ اس مسجد کا مؤذن حبشے کا کالا بلال ہوگا..سبحان الله)
امام بھی بے نظیر
موذن بھی بے نظیر
امام تلاوت کرے تو پہاڑوں کے دل دہل جائیں
موذن اذان دے تو تو لالہ زاروں کے دل دہل جائیں (سبحان الله)
عمر بھر سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے سیدنا بلال نے اذان دی ایک دن کسی نے کہہ دیا کہ حضور بلال شین کی جگہ سین کہتا ہے؟ فرمایا کہ کوئی اور دوسرا اذان کہہ دے! بلال نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی ! اپیل کے لفظ بہت مختصر
خدایا زبان بدل دے یا اذان بدل دے
آواز آتی ہے نہ زبان بدلوں گا نہ اذان بدلوں گا
سین سے اذان دینا بلال کا کام
اسکو قبول کرنا میرا کام
جس اذان کو نہ خدا نے بدلا اور نہ ہی بلال نے بدلا
شاباش بدعت پرست ملاں کہ اس نے اس اذان کی ابتدا بھی بدل دی اور انتہا بھی بدل دی ابتداء میں الصلوة والسلام علیک یا حبیب اللهِ يا رحمت للمعلمين یا نور امن نور الله
اس اذان کا پتہ نشان نہ بلال کی اذان میں ہے اور نہ ہی ابی مخدورہ اور ابن ام مکتوم کی اذان میں ہے۔ یہ ایجاد بندہ ہے۔ یہ بدعت ساز فیکٹروں کے مینیجروں کی خود ساختہ اذانیں ہیں ہماری اذان بھی بلالی ہماری تکبیر بھی بلالی کی، فرمایا گیا کہ حضرت بلال ہی کو اذان دینے کے لیے کہا جائے کیونکہ ان کی اذان سے عرش اعظم والا خوش ہوتا ہے۔
فتح بیت المقدس کی مسرت اذان بلالی
سیدنا فاروق اعظم نے جب بیت المقدس فتح کیا تو حضرت بلال وہاں موجود تھے ۔ جب کسی ملک کو فتح کیا جاتا ہے تو فوج کو انعام واکرام سے نوازا جاتا ہے اور مسرت کی تقریب منعقد کی جاتی ہیں جن میں خوشی اور مسرت کے مختلف پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں لیکن جب بیت المقدس فتح ہوا تو اسلامی فوج سے پوچھا گیا جس میں اکثریت صحابہ کی تھی کہ تمہاری کوئی دلی خواہش ہو تو بتایا جائے تو صحابہ نے بیک زبان ہو کر عرض کیا کہ اس تاریخ ساز فتح کے موقع پر ہمیں اذان بلالی سنائی جائے۔ چنانچہ فاروق اعظم نے خود حضرت بلال سے درخواست کی کہ آپ رسول ﷺ کے زمانہ کی اذان سنائیں ۔ حضرت بلال جو عشق رسالت ﷺ اور فراق رسالت کی وجہ سے غم ناک اور افسردہ خاطر تھے بہت مشکل سے اس بات کے لیے تیار ہوئے کیونکہ اس سے خود حضرت بلال کے قلب و جگر پر جو بیتی تھی اس کو وہی جانتے تھے لیکن امیر المومنین اور صحابہ کی فرمائش کو ٹال نہیں سکتے تھے ! چنانچہ اس وجہ سے بیت المقدس میں حضرت بلال نے جوں ہی اذان شروع کی اور اللہ اکبر کہا تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور جب اشهد ان محمدا رسول اللہ کہا تو لوگوں میں رونے سے کہرام مچ گیا۔ قریب تھا کہ ان کے قلوب اللہ کے ذکر سے پھٹ جاتے حضرت بلال کی اپنی داڑھی مبارک اشکوں سے تر ہو گئی ابو عبیدہ اور معاذ بن جبل روتے روتے بے تاب ہو گئے ! حضرت عمر روتے روتے نڈھال ہو گئے اور ان کی ہچکی بندھ گئی! اور دیر تک اذان کے بعد نقشہ جمارہا مجلس میں سکون ہوا تو سیدنا فاروق اعظم نے اس دردو کرب کے عالم میں نماز پڑھائی۔ یہ نماز اور اذان ہی بیت المقدس کا جشن فتح قرار پائی۔
کعبے کی چھت پر اذان بلالی
سیدنا بلال کے فضائل و مناقب میں جہاں اور بہت سے دلائل و براہین موجود ہیں ۔ وہیں فتح مکہ کے دن آپ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلال بیت اللہ کی چھت پر چڑھ کر آواز توحید کو بلند کرو۔ یہ صرف اذان ہی نہیں ہے بلکہ تو حید ورسالت کی عظمتوں کا اعلان ہے جو حضرت بلال کہا کرتے تھے ۔ چنانچہ سیدنا بلال کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ نے سقف کعبہ پر اذان دی ۔
چنانچہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ ان رسول الله الا الله امر بلا لا ان يو ذن يوم الفتح على ظهر الكعبة فاذن على ظهرها . ( طبقات ابن سعد ۳ ج ) رسول ﷺ نے بلال کو فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ کعبہ کی دیوار پر اذان دی جائے چنانچہ حضرت بلال نے ظهر کعبه ( کعبے کی چھت ) پر اذان دی ۔
شیر اور بلال
انس بن مالک کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو اپنے صحابہ میں جسے سفینہ کہتے ہیں ۔ حضرت معاذ بن جبل جو یمن کے حاکم تھے ان کے پاس ایک خط دے کر بھیجا۔ جب وہ راستہ میں آئے تو سڑک کے درمیان ایک شیر بیٹھا تھا۔ حضرت سفینہ خوفزدہ ہو گئے کہ یہ شیر ابھی حملہ کر دے گا۔
چنانچہ اس نے کہا کہ میں محمد ﷺ کا قاصد ہوں آپ کا خط لے کر معاذ بن جبل کے پاس یمن جارہا ہوں۔ شیر حملہ کرنے سے رک گیا اور ھم ھم کہتا ہو واپس ہو گیا اسی طرح واپسی پر ہوا۔ سفینہ نے واپسی پر یہ تمام واقعہ سرکار دو عالم ﷺ کو عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ شیر نے اول مرتبہ کیا کہا تھا ! شیر کہتا تھا کہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی کیسے ہیں اور واپسی پر شیر کہتا تھا کہ میری طرف سے ابو بکر عمر عثمان علی سلمان .. بلال کو سلام عرض کرنا سبحان الله)
جانور بھی نبی کے صحابہ کی تعظیم کرتے تھے ۔ مگر اس دور کا نام نہاد مسلمان انہیں پر تبرا کرتا ہے۔ اعاذنا اللہ تعالی
سیدنا بلال کی وفات
آپ دمشق میں فوت ہوئے اور وہیں آپ کا مزار ہے ۔ حضرت فاروق اعظم نے جب آپ کی وفات کی خبر سنی تو نہایت صدمے کا اظہار فرمایا جسے ایک شاعر نے نظم کیا ہے۔
عہد فاروق کہ جس دن ہوئی ان کی وفات
یہ کہا حضرت فاروق نے با دیده تر
اٹھ گیا آج زمانے سے ہمارا آقا
اٹھ گیا آج نقیب چشم پیغمبر سے
حضرات گرامی ! میں نے آپ حضرات کے سامنے نہایت تفصیل سے پروانہ توحید ورسالت سیدنا بلال حبشی کی حیات طیبہ کے روشن اور تابندہ اوراق بیان کئے ہیں۔ جو ہمارے لئے سرمہ بصیرت ہیں اللہ تعالی ہمیں بھی اس عاشق رسول ﷺ پروانہ تو حید کے نقش قدم پر چل کر اپنے ایمان وایقان کو روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب الـ رب العالمين