بشریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریر

بشریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریر

بشریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
بشریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

 

تیسرا خطبہ "جمادی الثانی” بعنوان "بشریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم” قرآن و حدیث کی روشنی میں "بسلسلہ”بارہ مہینوں کی تقریر”

تمہیدی کلمات!

بشریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ: فَاعْوُذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ . کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح انسان ہوں ۔ میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے ۔

حضرات گرامی! اس وقت جو آیت کریمہ میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالی نے زبان نبوت سے اعلان کرایا ہے کہ اے محبوب آپ خود اعلان فرما دیں کہ میں بشر ہوں اولاد آدم میں سے ہوں انسان ہوں ۔ ( یعنی نبی ﷺ کوئی دوسری مخلوق میں سے نہیں ہوتا بلکہ نبی ﷺ کو بھی اللہ تعالٰی بنی آدم ہی سے منتخب فرماتے ہیں اور یہ عظمت اور رفعت انسان ہی کو دی گئی ہے کہ نبوت کا تاج کائنات سے ممتاز و بالا بنا دے گا کیونکہ وحی الٰہی ایک ایسا شرف ہے جو تمام بنی آدم سے صاحب وحی کو ممتاز و فائق کر دیتا ہے ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نبوت اور رسالت انسان کو عطا فر ماتے ہیں اسی لیے سرکار دو عالم ﷺ سے بشریت کا اعلان کرایا گیا۔

حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے فضائل

جس طرح پیغمبر کے لیے خدا کی تو حید کا اعلان کرنا ضروری ہے جیسے: قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ) فرمادیجئے اللہ ایک ہے۔

اور جس طرح پیغمبر کو اپنی رسالت کا اعلان کرنا ضروری ہے جیسے قُلْ يَأْيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا) فرمادیجئے کہ اے لوگو میں اللہ کا رسول ہوں تم تمام کی طرف)

اور جس طرح پیغمبر کے لیے اپنے عالم الغیب ہونے سے براءت کا اعلان کرنا ضروری ہے جیسے: قُلْ لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ) فرمادیجئے نہ تو میرے پاس اللہ کے تمام خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں! اسی طرح پیغمبر کے لیے اپنی بشریت کا اظہار و اعلان کرنا بھی ضروری ہے۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ: کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح انسان ہوں)

قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیغمبر کی زبان مبارک سے اس لیے اعلان کرایا جارہا ہے تا کہ بد بخت پیغمبرانہ اعلان کا انکار نہ کر سکے! جاہل واعظوں اور جاہل عوام نے چونکہ اس اہم اور مہتم بالشان عظمت پیغمبر سے انکار کرنا تھا اس لیے اللہ تعالی نے لسان نبوت سے اعلان کرا کے بشریت کے مسئلہ کو واضح کر دیا کہ جو میرے پیغمبر کی زبان پر اعتماد کرے گا. وہ میرے محبوب کی بشریت کا اعتراف کرے گا، اور جو پر میرے پیغمبر کی زبان اعتماد نہیں کرتا وہ میرے پیغمبر کی بشریت کا بھی انکار کرتا ہے

بشریت کا انکار

زبان نبوت کا انکار ہے

میرے مصطفے آمنہ کے لال بن کر آئے

عبد اللہ کے فرزند بن کر آئے

عبدالمطلب کے پوتے بن کر آئے

ابی طالب کے بھتیجا بن کر آئے

خدیجہ کے خاوند بن کر آئے

عائشہ کے خاوند بن کر آئے

صدیق کے داماد بن کر آئے

فاطمہ ، رقیہ، ام کلثوم، زینب کے ابا بن کر آئے

علی کے سسر بن کر آئے

حسنین کے نانا بن کر آئے

رسالت کا تاج پہن کر آئے

اور بشریت کو چار چاند لگانے کے لیے آئے

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ

حضرات گرامی : یہ ہر دور کے مشرکین کی کمزوری رہی ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا! انبیائے سابقین کے مشرکین کے انکار انبیاء کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا ؟ قرآن مجید میں اس مسئلہ سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور مشرکین کے اس فاسد اور گندے عقیدے کو نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

مشرکوں کا عقیدہ بشر رسول نہیں ہو سکتا

حضرت نوح اور سید نا ہود علیہ الصَّلوة والسلام نے جب اپنی قوم کو اللہ تعالی کی توحید اور وحدانیت کا درس دیا تو ان کے قلبی روگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَ كُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبکم رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنذِرَكُمْ) کہ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس تمھیں میں سے ایک مرد کے اور پر نصیحت کی بات ( وحی ) آئی تا کہ وہ تم کو ڈرائے۔

قوم نوح

حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے سامنے مسئلہ توحید بیان فرمایا اور انہیں ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین فرمائی تو قوم نے حضرت نوح کے جواب میں کہا کہ نوح ہم تیری آواز کو نہیں سنتے اور نہ ہی تیری دعوت کو قبول کو تے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ فَقَالَ الْمَلَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا . ( سورة هود پاره ۱۲ ) ترجمہ: ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ ہم تو تم کو اپنے میں سے ایک بشر سمجھتے ہیں : فَقَالَ الْمَلَوُا الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَاهَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمُ . (سوره مومنون پاره (۱۸) ترجمہ: نوح کی قوم میں جو کافر رئیس تھے عوام سے کہنے لگے کہ یہ شخص تو تمہاری طرح ایک عام آدمی ہے اس سے ( دعوت نبوت ) سے اس کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے افضل ہو کر رہے!

قوم نوح کو اس بات پر اصرار تھا کہ یہ بشر ہے اور اپنی بڑائی چاہتا ہے اس کو نبوت کیسے مل سکتی ہے اس لیے ان کی بات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

قوم عاد

حضرت ہود علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو اللہ تعالی کی توحید کی طرف دعوت دی تو قوم نے آپ کے جواب میں وہی بات کہی جو ان کے وڈیرے مشرک حضرت سید نا نوح کو کہہ چکے تھے ، چنانچہ قرآن مجید ان کے عقیدہ کو بیان کرتا ہے: مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأكُلُ مِمَّا تَأكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَسِرُونَ . (سورۃ مومنوں پار۱۸۵) ترجمہ: یہ تو تمہاری طرح ایک ( عام ) آدمی ہے جو کچھ تم کھاتے ہو یہ وہی کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو یہ وہی پیتا ہے اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کے کہنے پر چلو گے تو بے شک اس وقت تم البتہ زیاں کار ہوگے۔ 

معلوم ہوا کہ قوم عاد کے وڈیروں نے بھی حضرت ہود علیہ السلام کو ماننے سے صرف اس لیے انکار کر دیا تھا کہ بشر تھے اور نبوت سے سرفراز تھے!

قوم ثمود

حضرت صالح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو اللہ تعالی کی عبادت کی دعوت دی تو قوم ثمود نے بڑی ڈھٹائی سے وہی کچھ کہا جو ان کے وڈیرے پہلے انبیاء کو جواب دے چکے تھے چنانچہ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: مَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا. (شعر ا پاره ۱۹) ترجمہ : تم تو صرف ہماری طرح ایک آدمی ہو! فَقَالُوا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُة إِنَّا إِذًا لَّفِي ضَلَلٍ وَسُعُرِءَ الْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ . ترجمہ: کہنے لگے کیا ہم اس بشر کا اتباع کریں گے جو ہماری جنس کا ایک فرد ہے بلا شبہ اس صورت میں گمراہی اور جنون میں مبتلا ہو جائیں گے کیا ہم سب میں سے اس پر وحی نازل ہوئی ہے (نہیں) بلکہ یہ جھوٹا ہے اترانے والا ہے ۔

قوم شعیب

حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو دعوت توحید دی تو قوم کے وڈیروں نے ان کے جواب میں کہا: وَمَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَإِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَذِبِينَ. (پ ۱۹ شعراء) ترجمہ: اور تم تو محض ہماری طرح ایک عام آدمی ہو اور ہم تو آپ کو جھوٹے لوگوں میں سے گمان کرتے ہیں (معاذ اللہ )

اصحاب قریہ

بستی والوں نے جب انبیاء کی زبان مبارک سے دعوت تو حید سنی تو جواب میں کہا: قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا . وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ. ترجمہ: ان لوگوں نے کہا تم تو محض ہماری طرح آدمی ہو اور خدائے رحمان نے آدمی پر تو کوئی چیز نازل نہیں کہ تم تو بڑا جھوٹ بولتے ہو۔ بستی والے زیادہ سے زیادہ اپنی جہالت اور کفر کو سامنے لے آئے اور دل کی بات بغیر لگی لپٹی کے کہہ ڈالی۔ وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ رحمن نے آج تک بشر پر کوئی وحی نازل ہی نہیں کی ۔ 

تمام مشرکین کا متحدہ محاذ

قرآن مجید کے قربان جاؤں اس نے کھل کر یہ بتا دیا کہ صرف انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ انبیائے سابقین کے دور کے تمام مشرکین نے اس عقیدہ کے لیے متحدہ محاذ بنالیا تھا! کہ بشر نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔ اس لیے وہ انبیاء کو جب دیکھتے تھے کہ یہ اولاد آدم میں سے ہیں انسان ہیں اور بشر ہیں تو وہ صاف کہتے تھے کہ ہم بشر کو قابل اتباع نہیں سمجھتے اس لیے کہ بشر پر کوئی چیز نازل ہی نہیں ہو سکتی چنانچہ الہ تعالی نے مشرکین سابقین کی وہ مشترکہ قراردار قرآن مجید میں نقل فرمائی ہے جسے ان کا مشتر کہ عقیدہ کہا جا سکتا ہے! الَمْ يَأْتِكُمُ نَبَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَقَالُوا اَبَشَرٌ يَّهْدُونَنَا (تغابن پاره (۲۸) ترجمہ: (اے مشرکین مکہ ) کیا تم کو ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی ۔ جنہوں نے تم سے پہلے کفر ( انکار کیا پھر انہوں نے (دنیا میں بھی ) اپنے کرتوت کا وبال چکھا اور ان کے لیے ( آخرت میں بھی ) دردناک عذاب ہے یہ سب اس لیے کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہا کیا آدمی ہم کو ہدایت کریں گے! بشر بھی بھلا اس قابل ہے کہ وہ قیامت و ہدایت کی اہم ذمہ داری کو اٹھا سکے ان کے نزدیک یہ بہت مشکل کام تھا اور وہ اس بات کو ماننے کے لیے قطعا تیار نہیں تھے کہ بشر کو نبوت ورسالت کا تاج پہنایا سکتا ہے!

مشرکین مکہ اپنے وڈیروں کے نقش قدم پر

سرکار دو عالم ﷺ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا اور قوم کو دعوت توحید دی تو مشرکین مکہ نے بھی اپنے سابق وڈیروں کے عقیدہ کو ہی اپنایا اور نہایت ڈھٹائی سے انہوں نے وہی جواب دیا جو پہلے مشرکوں نے انبیائے سابقین کو دیا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید نے جواب کو نقل فرمایا ہے کہ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ افَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَانْتُمْ تُبْصِرُونَ. ( پاره ۱۷ سورة انبياء ) اور ظالم کفار نے چھپا کر سر گوشی کی یہ محمد ﷺ ) تو محض تم جیسے آدمی ہیں تو کیا پھر بھی جادوگر کے پاس آتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو!

مشرکین مکہ نے میٹنگ کی اور خفیہ اجلاس میں اس عقیدہ کو اپنا کر اس کا اظہار کیا اور قرارداد پاس کر کے اپنے ہم نوا مشرکین کو یہ راستہ دکھایا کہ آپ کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے آپ کی بشریت کا بہانہ بنایا جائے!

یہود مدینہ بھی مشرکین کے ہم نوا

وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ إِذْ قَالُوا مَا انْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ . ( انعام پاره (۷) ترجمہ: اور ان لوگوں نے اللہ تعالی کی قدر نہ پہچانی جیسی قدر پہچاننا واجب تھی ! جب کہ یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ تعالی نے کسی بشر پر کوئی چیز بھی نازل نہیں کی ! یہود نے بھی مشرکین کی ہمنوائی میں یہی نعرہ لگایا کہ بشر پر آج تک اللہ تعالی نے کوئی چیز نازل نہیں فرمائی۔

معلوم ہوا کہ مشرک خواہ کسی دور کا ہو ۔ نوح کے زمانہ کا ہو یا موسی کے زمانہ کا عیسی کے زمانہ کا ہو یا حضرت محمد رسول ﷺ کے زمانہ کا لیکن یہ بات بہر حال ان کے ہاں طے شدہ ہے کہ بشریت رسالت کے منافی ہے بشر رسول نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے انہوں نے متفقہ طور پر انبیاء کی نبوت کا انکار کر دیا .. اور مَا أَنْزلَ الله عَلى بَشَرٍ مِنْ شي.. کانعرہ تمام مشرکین کا مشتر کہ نعرہ بن گیا تھا!

حضرات گرامی! کل کے مشرکین اور کفار بشریت کو رسالت کے منافی سمجھتے تھے ان کا عقیدہ اور نظریہ یہ تھا کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا !

اور آج کا نام نہاد مسلمان یہ کہتا ہے کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا !

فرق صرف یہ ہے کہ وہ بشر نبی سے پہلے کہتا تھا اور آج کا مشرک نبی بشر سے پہلے لکھنے میں لاتا ہے.. 

تو معلوم ہوا کہ 

پہلے نے کہا .. .. بشر نبی نہیں ہوسکتا عہد حاضر نے کہا نبی بشر نہیں ہو سکتا لفظ ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل دیا مگر مفہوم دونوں کا ایک! دونوں ہی بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ نبی تو مان لیا اور بشریت سے انکار کر دیا؟ حالانکہ قُلْ أَنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ پہلے ہے اور یوحی الی بعد میں ہے۔

یعنی پہلے بشر مانو پھر رسول مانو، کیونکہ بشریت نبی کے لیے لازم ہے، عبده پہلے مانو، پھر رسولہ مانو

اگر اس سے انکار ہے تو ہمت کرو واعظو! ستارے بدل سکتے ہیں

التحیات میں عبدہ ورسولہ کو بدل ڈالو تا کہ تمہارا دل ٹھنڈا ہو جائے!

زمین بدل سکتی ہے آسمان بدل سکتے ہیں چاند سورج اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں مگر نہ تو قرآن سے إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ.. نکالا جاسکتا ہے اور نہ ہی التحیات سے… عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ نکالا جا سکتا ہے۔

تعجب نہیں تو اور کیا ہے؟ 

امام الانبیا شفیع المذنبین رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفے ﷺ

آدم کی اولاد ہیں

عبدالمطلب کے پوتے ہیں 

عبد اللہ کے لخت جگر ہیں 

آمنہ کے لال ہیں

حلیمہ کی گود میں دودھ پینے والے ہیں

مگر پھر بھی آپ کی بشریت کا انکار ہے۔

تعجب نہیں تو پھر اور کیا ہے!

سوال یہ ہے کہ اگر بشر نبی نہیں ہوسکتا یا نبی بشرنہیں ہوسکتا تو مشرکین پھر بتایا جائے کہ نبی اور رسول کون ہوگا ؟ مشرک بولے ! ہاں ہاں اب ہماری مرضی کا سوال ہوا ہے کہ ہم جب بشر کو نبی نہیں مانتے تو پھر نبوت اور رسالت کا حقدار کون ہے؟ لو ہم سے پوچھتے ہو تو ہماری سن لو اور ڈنکے کی چوٹ سن لو !

قوم نوح نے کہا: وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَا نُزَلَ مَلَائِكَةٌ ( حم سجده پاره ۲۴). اگر اللہ کو رسول بھیجنا منظور ہوتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔

قوم عاد و ثمود نے کہا

قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَانُزَلَ مَلَئِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَفِرُونَ . ( حم سجده پاره (۲۴) جواب دیا گیا کہ اگر ہمارا پروردگار رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا پس ہم اس کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو!

مشرکین مکہ نے کہا

قَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مُلْكُ ( انعام پاره ۷) ترجمہ: کیا ان کے پاس فرشتہ کیوں نہ بھیجا گیا! وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَ نَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَئِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا. ( الفرقان پاره ۱۶ ) ترجمہ: اور ( کا فر ) لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں ! وَقَالُوا يَأَيُّهَا الَّذِى نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ لَوْمَا تَأْتِينَا بِالْمَلَئِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّدِقِين. ( حجر پاره ۱۴) ترجمہ: اور ان ( کفار مکہ ) نے یوں کہا کہ اے وہ شخص کہ جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے تم (تو) مجنون ہوا گر تم ( دعوی رسالت ) میں سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتے!

مشرکین مکہ جب سرکار دو عالم ﷺ کو کھاتا پیتا دیکھتے اور چلتے پھرتے دیکھتے تو نہایت حیرانگی سے کہتے کہ یہ کیسے رسول اور نبی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ: وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمُشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا. (فرقان پاره ۱۸ ) ترجمہ: کہتے تھے کہ یہ انسان کی طرح کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ آپ کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا !

حضرات گرامی! تمام مشرکین کا متفقہ مطالبہ تھا کہ نبی نوری ہو بشر نہ ہو کیونکہ بشر نبی نہیں ہو سکتا،

اب بتایا جائے اس منطق شرکیہ اور فلسفہ غالیانہ کا کیا کیا جائے؟ سوائے اس کے کہ یہ کھل کر اعلان کر دیا جائے کہ یہ تمام رسالت اور حضور ﷺ کی نبوت کے خلاف ایک مشترکہ محاذ ہے جسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کی بشریت اس قدر عظیم عظمت اور عزت کی حامل ہے کہ تمام کائنات کے بشر اور انسان میرے آقا ﷺ کی عظمت بشریت کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔

حسن یوسف دم عیسٰی ید بیضا داری

آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری 

ایک عظیم ظلم

حضرات گرامی! یہ ایک عظیم ظلم و ستم کی داستان ہے کہ یہی مشرک آدمی کو بشر کو انسان کو خدا ماننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں مگر نبی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بشریت رسالت کے لیے تو ان کے ہاں منافی ہے۔ بشریت نبوت کے تو منافی ہے۔ یہی بشریت الوہیت کے منافی نہیں ہے یہی بشریت نبوت کے منافی ہے، تماشہ دیکھئے؟۔ بشر خدا ہوسکتا ہے ان کے نزدیک بشر مشکل کشا ہو سکتا ہے بشر نفع نقصان کا مالک ہوسکتا ہے بشر مختار کل ہو سکتا ہے بشر بیٹے دینے پر قادر ہو سکتا ہے مگر بشر اگر نہیں ہوسکتا تو صرف نہ رسول ہو سکتا ہے اور نہ ہی نبی یہ ہے ان جاہلوں کا شریعت محمدی کے دشمنوں کا عقیدہ و نظریہ( لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلا بِا اللهِ يَا أَسْفَى)

آخر ایسا کیوں ہے؟

معزز سامعین! آپ بھی حیران ہوں گے کہ یہ لوگ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ ان کا کوئی مالیخو لیا ہے یا ان کے دماغ خراب ہو گئے ہیں یہ اچھے بھلے انسان ہوتے ہوئے انسان کے کیوں دشمن ہیں یہ کیا جانتے ہیں اور انہوں نے کیونکہ ایسے خلاف قرآن عقائد و افکار کو اپنا لیا ہے تو بڑے غورو خوض کے بعد مجھے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ یہ دراصل اس احساس کمتری کا شکار ہیں کہ بشر سے نور افضل ہے چونکہ نبی کو سب سے افضل ہونا چاہیے اس لیے نبی کی بشریت کا انکار کر کے آپ کے نوری ہونے کا عقیدہ قائم کیا جائے ، فلسفے کے پیش نظر ان کو یہ سارا تانا بانا بینا پڑا۔ حالانکہ ان عقل و فکر سے عاری اور قرآن وحدیث سے بے خبر واعظوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ خدا کی مخلوق میں بشر انسان اور آدمی سے بہتر کوئی مخلوق ہے ہی نہیں چنانچہ قرآن حکیم اس پر گواہ ہے۔

قرآن کی پہلی گواہی: خَلَقْتُةُ بيدي) انسان کو اپنے دونوں ہاتھ سے بنایا (سبحان اللہ) 

لوح بنائی کن کہہ کر

عرش بنا یا کن کہہ کر

قلم بنائی کن کہہ کر

نباتات بنائے کن کہہ کر

جمادات بنائے کن کہہ کر

سورج بنایا کن کہہ کر

چاند بنایا کن کہہ کر

جبرائیل بنایا کن کہہ کر

عزرائیل بنایا کن کہہ کر

اسرافیل بنایا کن کہہ کر

میکائیل بنایا کن کہہ کر

نوری بنائے کن کہہ کر

ناری بنائے کن کہہ کر

مگر قربان جاؤں تیرے اے بشر تیرے اے انسان

خَلَقْتُهُ بيدى اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا

تا کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ

بنانے والا بھی اعلی

اور بلڈنگ بھی اعلی

میرے جیسا خالق کوئی نہیں

انسان جیسی مخلوق کوئی نہیں

جو انسان پر اعتراض کرے گا

اس کا انسان پر اعتراض بعد میں ہوگا، بنانے والے پر اعتراض پہلے ہوگا .. .. اس لیے سوچ سمجھ کر اعتراض کرنا اگر اس پر اعتراض کرو گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود قرار دے دیئے جاؤ گے۔ اگر یقین نہیں آتا تو شیطان کا حشر دیکھ لو شیطان بھی ان مردودان از لی میں سے ہے جس نے عظمت بشریت اور عظمت انسان کا انکار کیا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت سے نکال کر لعنت کا طوق گلے میں ڈال دیا گیا۔

قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّى خَالِقٌ ، بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ قَالَ يَابْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلْقَتُ بِيَدَيَّ اَسْتَكْبَرُتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ قَالَ فَاخْرُجُ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَحِيْمٌ وَّإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى. يَوْمِ الدِّينِ. ( سورة ص پاره ۲۳ ) ترجمہ : جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ سو جب میں اس کو بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے جان ڈال دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ پس سارے کے سارے فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کے اے ابلیس؟ جس چیز کو میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا اس کو سجدہ کرنے سے تجھ کو کون سی چیز مانع ہوئی ؟ کیا تو غرور میں آگیا ؟ تو بلند مرتبے والوں میں سے ہے؟ کہنے لگا میں آدم سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے! ارشاد ہوا تو آسمانوں سے نکل جا کیونکہ بے شک تو مردود ہو گیا اور بے شک تجھ پر قیامت تک میری لعنت رہے گی !

حضرات گرامی! 

پہلے آدم کو بشر اللہ تعالی نے کہا

پہلے عظمت آدم کا اعتراف نوریوں نے کیا

پہلے عظمت آدم کا انکار بشریت کا انکار شیطان نے کیا

سب سے پہلے بشریت آدم کا انکار کر کے شیطان مردود ہوا

سب سے پہلے عظمت بشریت کے منکر کو خدا نے لعنتی کہا

سب سے پہلے تاج نبوت بشر کے سر پر خدا نے رکھا

سب سے پہلے تمام کائنات پہ بالاتری انسان کو دی گئی

سب سے پہلے علم آدم کا ڈنکا نوریوں کے سامنے خدانے بجایا

اس لیے آدم تمام مخلوقات میں خدا کی بے مثال شاہکار مخلوق ٹھہرے۔ سبحان الله)

قرآن کی دوسری گواہی!

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَهُم مِّنَ الطَّيِّبَتِ وَفَضَّلْنَهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلا. ( پاره ۱۵ بنی اسرائیل ) ترجمہ: اور بلاشبہ ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو بزرگی دے کر اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔

اس سے معلوم ہوا کہ بنی آدم تمام مخلوقات الہیہ میں خیر الخلاق ہے اور تمام مخلوقات میں افضلیت اور عظمت کا تاج اولاد آدم کے سر پر رکھا ہے۔

قرآن کی تیسری گواہی

إِنَّا عَرَضْنَا الأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ. (سورۃ احزاب پاره (۲۲) ترجمہ : ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو سب نے اس (بار) امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس کے (تحمل سے) ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ تاج ربانی صرف اور صرف حضرت انسان ہی کے سر پر سجایا گیا۔ یہی اس کا اہل تھا اور اسی کے سر پر تاج خلافت بجتا بھی تھا۔ سجتا بھی تھا۔ سبحان اللہ)

ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پاسکے

میرا ہی ایک دل ہے جہاں تو سما سکے "

قرآن کی چوتھی گواہی

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَ هذَا الْبَلَدِ الْأَمِيْنِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ. اللہ تعالی نے چار قسمیں کھا کر فرمایا کہ انسان کو تمام مخلوقات میں احسن وافضل پیدا فرمایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مخلوقات میں سے انسان سب سے افضل تھا۔ سب سے اعلی تھا سب سے ارفع تھا سب سے پاکیزہ تھا سب سے مطہر تھا۔ اس لیے انبیاء کو بھی جنسی بشریت میں رکھا گیا اسی لیے ارشاد فر مایا کہ اے میرے محبوب اعلان فرما دیں کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ

قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا.

اللَّهُمَّ أَنَا مُحَمَّدٌ بَشَرٌ

أَمَّا بَعْدُ أَلَا يَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ

(مسلم شريف، مشكوة شريف ج ۲)

ہمارا عقیدہ

تمام دنیا ایک طرف ایک انسان کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے ۔

تمام انسان ایک طرف ایک ولی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے ۔ تمام ولی ایک طرف ایک علیؓ کے رہتے کو نہیں پاسکتے

تمام دنیا اور علی ایک طرف سید ناصدیق اکبر کے درجہ کو نہیں پاسکتے

تمام دنیا اور صدیق ایک طرف ایک نبی کے درجے کو نہیں پاسکتے

تمام دنیا اور نبی ایک طرف ایک مصطفےٰ ﷺ کے درجے کو نہیں پاسکتے 

تمام دنیا اور میرے مصطفےٰ ایک طرف میرے خدا کے درجے کو نہیں پاسکتے

خدا اپنی خدائی میں وحدہ لاشریک ہے

مصطفیٰ اپنی مصطفائی میں وحدہ لاشریک ہے

مصطفےٰ کے بعد نبی کوئی نہیں

خدا کے بعد خدا کوئی نہیں

جو حضور ﷺ کا مرتبہ بڑے بھائی جتنا مانے وہ بھی کافر اور جو حضور ﷺ کا رتبہ خدا جتنا مانے وہ بھی کافر

خدا خدا ہے مصطفے مصطفے ہے

کیا خوب کہا ہے انور صابری نے

کہا ہے کس نے کہ سردار انبیاء نہ کہو

کہا ہے کس نے کہ سرتاج اولیا نہ کہو

یہی ہے فلسفہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ

خدا کے بعد سبھی کچھ کہو خدا نہ کہو

وَاخِرُ دَعُوهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ

Leave a Comment