انبیاء کرام کی مشترکہ دعوت توحید

پہلا خطبہ "جمادی الاول” بعنوان "انبیا کی مشتر کہ دعوت توحید” قرآن و حدیث کی روشنی میں "بسلسلہ”بارہ مہینوں کی تقریریں”
تمہیدی کلمات!
انبیاء کرام کی مشتر کہ دعوت توحید
نَحْمَدُه وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ فَاعْوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: وَمَا أَرْسَلْنَامِنُ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِيَ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (پ۱۷ سوره انبیاء) ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بھی ہر پیغمبر کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی عبادت کرو۔
حضرات گرامی: اس وقت میں نے آپ حضرات کے سامنے جو آیت کریمہ تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالی نے اسلام کے اس بنیادی مسئلہ کا ذکر فرمایا ہے جو تمام انبیا کی دعوت کا بنیادی اور اساسی نکتہ رہا ہے تمام انبیا اپنے اپنے میں وقت تشریف لاتے رہے اور جاتے رہے مگر اس مسئلہ توحید کی حیثیت اور بنیاد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ سدا بہار نعرہ جوں کا توں رہا کہ لا الہ الا اللہ وہ بنیادی اور اساسی مسئلہ کیا ہے جس کے لئے انبیاء تشریف لائے وہ ہے۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
مسئله توحید! جی ہاں توحید!
الفاظ کے اعتبار سے تو ہر کوئی دعویدار ہے کہ ہم بھی عقیدہ توحید کے قائل ہیں۔
حجرہ پرست سے پوچھو؟ تو وہ بھی تو حید کا نام لیوا
شجر پرست پوچھو؟ تو وہ بھی تو حید کا نام لیوا
قبر پرست سے پوچھو؟ تو وہ بھی تو حید کا نام لیوا
تعزیہ پرست سے پوچھو؟ تو وہ بھی توحید کا نام لیوا
پیر پرست سے پوچھو؟ تو وہ بھی توحید کا نام لیوا
مگر جب توحید کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہی نام لیوا .. جان لیوا بن جاتے ہیں لیکن روز اول سے یہ سنةاللہ جاری رہی ہے کہ کچھ اللہ کے بندے اس کی توحید کے لیے ہتھیلیوں پر جان لیے پھرتے ہیں۔ وہ اسی طرح تاریخ مرتب کرتے رہے اور کچھ توحید کے دشمن بندہ مومن کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے شب و روز محنت کرتے رہتے ہیں۔
ایک جان دینے والوں کی تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ دوسرے جان لینے والوں کی تاریخ مرتب کرتے ہیں۔
توحید شرک کی ضد ہے
توحید مدار نجات ہے
تو حید جنتی اور جہنمی کی کسوٹی ہے
تو حید ایمان اور کفر کا معیار ہے
عقیدہ توحید ہی سے اسلام کی بلڈنگ کی پختگی کا اندازہ ہو سکے گا ! اس لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بار بار جس عقیدے کو قائم رکھنے پر زور دیا ہے اور جسے تمام انبیاء کی دعوت کا مرکز نکتہ قرار دیا ہے وہ صرف اور صرف مسئلہ تو حید ہے، جی ہاں! حضرت نوح سے لے کر خاتم النبیین ﷺ تک جس قدر انبیاء کرام اس دنیا میں مبعوث ہوئے سب نے پہلے جس مسئلہ پر پورا زور فرمایا اور پوری محنت کا رخ جس سمت موڑ کے رکھا وہ مسئلہ توحید ہی تھا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت
چنانچہ اس وقت میں آپ حضرات کے سامنے نو انبیاء کی ان تقریروں کا تذکرہ کروں گا جو انبیا نے اپنے وقت کے نمرودوں، فرعونوں، سرکشوں، وڈیروں ملنگوں، گدی نشینوں، پنڈتوں پروہتوں اور مجاوروں کے سامنے ارشاد فرمائی تھیں اور اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے انبیاء کی پیاری تقریروں کو قرآن مجید میں ریکارڈ کر کے امت محمدیہ ﷺ کے حوالے کر دیا تا کہ میرے محبوب کے موحد امتیوں کو پیغمبر کی تقریریں سننے کو جب دل چاہے تو قرآن کا بٹن دبانا ان کا کام ہوگا۔ نبیوں کی تقریریں سنانا میرا کام ہوگا۔ سبحان اللہ)
انبیاء کی نو تقریریں
پہلی تقریر حضرت نوح نے اپنی قوم کے سامنے فرمائی جو قوم چند صالحین کو مشکل کشا حاجت روا نفع نقصان کے مالک اور دور و نزدیک سے سننے والا اور متصرف فی الامور سمجھ کر پکارا کرتے تھے اور جنہوں نے خدائے وحدہ لاشریک لہ کی عبادت سے منہ موڑ لیا تھا۔غیرت خداوندی جوش میں آئی حضرت نوح علیہ السلام تشریف لائے اور ارشاد فرمایا ! لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِّنْ إِلَهِ غَيْرُهُ. (پ ۸، الاعراف) ترجمہ : ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تو آپ نے کہا کہ اے میری قوم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں !
اس تقریر میں نوح علیہ السلام نے دو باتوں پر زور دیا۔ ایک کہ عبادت صرف اللہ کی کرو دوسرے اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی الہ نہیں !
لفظ عبادت ”لفظ الہ“ چونکہ ایک وسیع مفہوم اور معنی رکھتے ہیں ۔ اس لیے حضرت نوح کی قوم جو آپ کے ہم زبان اولین مخاطب تھے۔ وہ فورا عبادت اور الہ کے مفہوم کو سمجھ گئے ۔ وہ بھانپ گئے کہ نوح علیہ السلام ان سے سے کس کی عبادت چھڑانا چاہتے ہیں وہ کس کی عبادت کرانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی کس کی الوہیت منوانا چاہتے ہیں اور کس کس کی الوہیت چھڑانا چاہتے ہیں اس لیے وہ فورا بولے۔ بلا تاخیر بولے اور بلا جھجک بولے۔ اور مشرکوں کو پیغمبر کے سامنے بولنے سے حیا نہیں آتی تو بھلا اور کسی کے سامنے ان کو کیا حیا آئے گی ! فوراً میٹنگ کر کے جواب دیا: وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ الهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا.) اور قوم نے کہا کہ اپنے معبودوں کو مت چھوڑو اور رود، سواع یغوث یعوق اور نسر کو ہر گز نہ چھوڑو!)
کیا حضرت نوح علیہ السلام نے نام لے کر کہا تھا کہ ود سواع يغوث، یعوق نسر کو معبود نہ مانو؟ اگر نوح علیہ السلام نے نام نہیں لیا تو مشرکین نے کیسے ان کا نام لے کر انہیں معبودوں میں شمار کر لیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مشرک کے دل کا چور موحد کی تقریر سے پکڑا جاتا ہے ۔
یہ پنجتن کون تھے؟
بخاری شریف میں ہے کہ ود سواع، یغوث، یعوق، نسر كلها هولاء رجال صالحين من قوم نوح عليه السام فلما هلكو اوحى الشيطان الى قومهم ان انصبو الى مجالسهم التي كانو ايجلسون فيها انصاباً وسمو وسموها باسمائهم ( بخاری ) یہ سب نوح ﷺ کی قوم کے بزرگوں کے نام تھے جب وہ وفات پاگئے تو شیطان نے ان کی قوم کو یہ بات سمجھائی کہ جہاں یہ لوگ بیٹھتے تھے وہاں کچھ نشان کھڑے کر لو اور ان کے نام ان بزرگوں کے نام پر رکھ لو۔
حج بیت اللہ کی اہمیت و فضیلت پر تقریر
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی تفسیر عزیزی میں ارشاد فرماتے ہیں کہ پانچوں نام حضرت ادریس کے صاحبزادوں کے ہیں بہت نیک لوگ تھے۔ تفیسر عزیزی پاره تبارک نمبر ۲۹)
گویا کہ یہ حضرات ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر، اپنے علاقہ کے پینج پیر تھے۔ جو علاقائی الہ اور مشکل بنائے ہوئے تھے۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر قدس سرہ فرماتے ہیں۔ انهم اتباع يقتدون بهم فلما ماتوا قال اصحابهم الذين يقتدون بهم . لو صورنا هم كان اشوق لنا الى العباده اذاذ کر نا هم فصو رو هم. (البدایہ والنھایہ ج 1) ترجمہ: اور ان کے کافی پیرو کار تھے جو ان کی اقتداء کرتے تھے ، جب ان پانچوں کی وفات ہوگئی تو ان کی پیروی کرنے والوں نے کہا ہم اگر ان کا تصور پیش نظر رکھیں تو عبادت میں بڑا ذوق اور شوق حاصل ہوگا تو انہوں نے ان کی تصویریں اور فوٹو بنا لیے ان کی پوجا شروع کر دی تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ ان مورتیوں اور مجسموں میں نیک بزرگوں کی ارواح کارفرما ہیں اور وہی ان کی بگڑی بناتے ہیں اور وہی ان کے تمام امور میں کارساز اور حاجت روا ہیں۔ یہی عقیدہ زمانہ حال کے مشرکین کا ہے وہ بھی اولیاء اللہ کو حاجت روا مشکل کشا نہیں سمجھتے ، بلکہ
حضرت علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں۔ قال غير واحد من السلف كان هو لاء قوما صالحين في قوم نوح فلما ماتو عكفو اعلى قبورهم ثم صورو اتما ثيلهم ثم طال عليهم الا مد لعبد و هم . (اغااللفهان) کہ اکثر سلف کا بیان ہے کہ یہ پانچ حضرات نوح کی قوم کے نیک لوگ تھے جب وہ وفات پاگئے تو لوگوں نے ان کی قبروں پر مجاوری اختیار کر لی پھر ان کی تصویریں اور ور مجسمے بنالئے ۔ پھر جب کافی زمانہ گزر گیا تو ان کی عبادت شروع کر دی۔
معلوم ہوا کہ مشرکین سابقین بتوں کے پجاری نہیں تھے بلکہ انہوں نے اولیا اللہ کے مجسمے بنا کر ان کی پوجا شروع کردی تھی، اور ان کا عقیدہ تھا کہ ان مورتیوں اور مجسموں میں نیک بزرگوں کی ارواح کا کارفرما ہیں اور وہی ان کی بگڑی بناتے ہیں اور وہی ان کے تمام امور میں کارساز اور حاجت روا ہیں۔ یہی عقیدہ زمانہ حال کے مشرکین کا ہے وہ بھی اولیاء اللہ کو حاجت روا مشکل کشا نہیں سمجھتے ، بلکہ ان کا عقیدہ بھی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو تمام اختیار دے دیئے ہیں بندہ قادر کا بھی ہے قادر بھی ہے عبدالقادر بھی ۔ یہ ذاتی اور عطائی کا فرق بھی احبار و رہبان کرتے ہیں ۔ جاہل تو پیروں فقیروں کو اختیار میں خدائی میں برابر کے حصے دار سمجھتے ہیں۔ (نعوذبااللہ)
نوح علیہ السلام کو گالیاں
حضرت نوح نے صرف اتنا ہی کہا تھا: ما لكم من ا له غيره.) صرف اتنی بات سے قوم سیخ پا ہوگئی اور ہوش و حواس خطا ہو گئے ۔ غصے میں لال پیلے ہو کر واہی بتا ہی بکنے لگے ۔ قرآن نے ان کی ہرزہ سرائی کو بھی ریکارڈ کر کے امت مسلمہ کے حوالے کر دیا تا کہ انہیں بھی پہلی مشرک قوموں کے گدی نشینوں اور توحید کے دشمنوں کے حالات کا علم ہو جائے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: قَالَ الْمَلَا مِنْ قَوْمِةٍ إِنَّالَتَرَكَ فِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ. (پ ۸ الاعراف) نوع کی قوم سرداروں نے کہا کہ ہم تجھے کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں) یہ تھی وہ پہلی گالی جو نوح علیہ السلام کو صرف اور صرف مسئلہ تو حید بیان کرنے پر دی گئی۔
حضرات گرامی!
کیا نوح علیہ السلام کی تقریر سخت تھی؟
کیا نوح نے کسی کو گالی دی تھی؟
کیا نوح نے کسی کے بزرگ کا نام لے کر سخت سست کہا تھا ؟
کیا نوح نے کسی وڈیرے کو گدی نشین کا نام لے کر برا بھلا کہا تھا؟
اگر نہیں اور ہرگز نہیں وہ کون سا سخت لفظ تھا ؟ سیدھی سی بات ہے جب تو حید کا بیان ہوگا۔ تو مشرک ضرور ویران ہوگا تو مجھے بتایا جائے کہ قوم نوح کے مشرکین نے گالی کیوں دی ؟ کہا جاتا ہے کہ تو حید بیان کرنے والوں کی وجہ سے لوگ ہزاروں کو گالیاں دیتے ہیں وہ مصلحت کوش، عافیت پسند حجره نشین سستی جنت کے متلاشی مجھے بتائیں کہ
وہ کون سا سخت جملہ تھا؟
وہ کون سا درشت لہجہ تھا ؟
جس نے قوم نوح کو حضرت نوح کی تو ہین وتنقیص پر ابھارا تھا۔ وہ گالی نہیں تھی ۔ وہ سخت زبان نہیں تھی ۔ وہ برا بھلا نہیں کہا گیا تھا۔ وہ کسی کی توہین و تنقیص نہیں کی گئی تھی ۔ … مسئلہ توحید کا بیان ۔ اس کو ضرور غصہ آئے گا ۔ وہ تو ضرور واہی تباہی کے گا، موحد کی آتش ذوق و شوق فزوں تر ہوگی تو مشرک کی آتش غضب فزوں تر ہوگی، مشرک اپنی جگہ معذور، موحدا اپنی جگہ معذور، سبحان اللہ
دوسری تقریر حضرت ہود علیہ السلام
قوم عاد بھی شرک و بدعت کی رسیا تھی۔ ان کو بھی جب تک پوجنے کے لیے پانچ دس دیوتا نہیں ملتے تھے ان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی تھی۔ اللہ تعالی نے ان کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔
حضرت ہوڈ نے قوم کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَإِلى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَالَكُمْ مِّنْ إِلَهِ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ (پاره ۹ اعراف) ترجمہ: اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا گیا آپ نے کہا اے میری قوم اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ سو کیا تم ڈرتے نہیں؟ حضرت ہود علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ (مالكم من اله غیرہ) دنیائے کفر و شرک و بدعت پر بجلی گرانے کے مترادف ثابت ہوا۔ غصے سے نتھنے پھول گئے۔ پیشانی پر بل پڑ گئے ۔ جل بھن کر کوئلہ ہو گئے۔ فوراً انجمن مشرکین کی میٹنگ بلائی گئی۔ اور فوری طور پر ایک متفقہ قرارداد پاس کر کے حضرت ہود کو جواب دیا گیا۔ جسے قرآن پاک میں ریکارڈ کر کے امت محمدیہ کے حوالے کیا گیا۔ قرآن پاک نے ان مشرکین کے جواب میں کہا: قَالُوا يَهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي الِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ إِنْ نَّقُولُ إِلَّا اعْتَرَكَ بَعْضُ الهَتِنَا بِسُوءٍ. پاره ۲ ۱ سوره هود) انہوں نے کہا اے ہود ! تو کوئی صاف بات لے کر ہمارے پاس نہیں آیا اور ہم تیرے کہنے سے اپنے (معبودوں) کو نہیں چھوڑیں گے اور ہم تجھے ماننے کے نہیں ! ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے معبود نے تجھے آسیب پہنچایا ہے۔
انجمن مشرکین کے گدی نشینوں اور مجابروں نے پھر عوام کو ساتھ ملا کر حضرت ہود کو کہا: قَالُوا اَجِتُتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ الهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّدِقِينَ. انہوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں معبودوں سے پھیر دے! اگر تو سچا ہے تو ہم پر وہ عذاب جس کا تو وعدہ کرتا ہے لے آ پھر غصے میں آکر کہنے لگے: قَالُوا اَجِتُتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَمَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَافَأْتِنَا بِمَا تُعِدُنَا إِنْ كُنتَ مِنَ الصَّدِقِينَ) ترجمہ: انہوں نے کہا تو اس لیے ہمارے ہاں آیا ہے کہ ہم ایک ہی اللہ کی عبادت کریں اور جن معبودوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے چھوڑ دیں پس اگر تو سچا ہے تو ہمارے پاس عذاب لے آ جس کا تو وعدہ کرتا ہے ۔
حضرات گرامی! قوم عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کو جواب میں پانچ باتیں زور دے کر کہیں تمہاری تقریر غیر مدلل ہے، تیرے کہنے سے ہم اپنے باطل معبودوں کو ترک نہیں کر سکتے، تجھے ہمارے پیروں فقیروں کی مار پڑ گئی ہے، ہم پر اگر تیرا بس چلتا ہے تو عذاب لے آ تو ہمیں صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا ہے؟ نتیجه ( وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْ مِنِينَ . ہم تجھ پر ایمان نہیں لا سکتے۔
حضرات گرامی!
دور حاضر کا مشرک بھی علمائے حق کی تو حید وسنت سے لبریز تقریر سن کر وہی کچھ کہتا ہے جو زمانہ ( ہود ) کے مشرکین اور مجاوروں نے کیا تھا کہ۔ تمہاری تقریریں غیر مدلل اور فساد پیدا کرتی ہیں۔ تمہارے کہنے سے ہم پیروں فقروں کی عبادت نذر نیاز نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم کھاتے پیتے اور کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ اگر تمہارا بس چلتا ہے تو ہمیں مفلس و نادار کردو۔ تم ہمیں صرف ایک اللہ کی دعوت دیتے ہو حالانکہ جب تحصیل دار بغیر چپراسی کے نہیں مل سکتا اور چھت پر بغیر سیٹرھی کے نہیں چڑھا جا سکتا ۔ تو اللہ کو ان درمیانی مشکل کشاؤں کے بغیر نہیں ملا جا سکتا۔ ہماری فریاد ان کے آگے ہوتی ہے اور ان کی فریاد اس کے آگے۔ وہ ہماری سنتا نہیں ۔ ان کی موڑتا نہیں ! اسی علم پر دور حاضر کا شرک و بدعت کا پجاری پلتا اور پھلتا ہے۔ جب فہرست بنے گی تو ہمارا نام آئے گا نوح کے عقیدہ کو ماننے والوں میں، اور ہمارا انام آئے گا ہود کے عقیدہ کو ماننے والوں میں اور مشرک کا نام آئے گا .. ان مشرکین کی فہرست میں جو توحید کے خلاف نوح اور ہود علیہم الصلاۃ والسلام کے دشمن بن گئے ۔
تیسری تقریر
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کیا : وَإِلَى ثَمُودُ أَخَاهُمْ صَلِحًا مِ قَالَ يَقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَالَكُمْ مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُه . پاره ۱۲ (هود) ترجمہ: اور قوم ثمود کی طرف اللہ نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ آپ نے کہا کہ اے میری قوم اللہ ہی کی عبادت کرو تمہارا اس کے سوا کوئی الہ نہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام کی پیاری اور توحید کے نغموں سے لبریز تقریر کا جواب مشرکین نے ان الفاظ میں دیا: قَالُوا يَصْلِحُ قَدْ كُنتَ فِيْنَا مَرُجُوا قَبْلَ هَذَا أَتَنْهَنَا أَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ. ترجمہ: انہوں نے کہا اے صالح اس سے پہلے ہمیں تجھ سے امید تھی کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے منع کرتا ہے۔ بے شک ہم اس (مسئلہ تو حید ) سے جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے بڑے شک میں ہیں۔
حضرت صالح کو قوم نے کہا کہ ہماری تجھ سے بہت سی امیدیں وابستی تھیں۔ ہم تجھے اس سے قبل بہت نیک سمجھے تھے ۔ اب ہماری امیدیں ٹوٹ گئیں اور تو مشکوک ہو گیا۔ یہی گفتگو عہد حاضر کا مشرک آج موحدین کے بارے میں کرتا ہے۔ پہلے تو بہت نیک تھا۔ اب پتہ نہیں اس کو کیا ہو گیا ہے، ہماری تمام امیدوں پر اس نے پانی پھیر دیا ہے۔ اس کا کردار مشکوک، عمل مشکوک اور عقیدہ مشکوک۔ یہ الزامات کب لگائے جائیں گے۔ جب کوئی عالم ربانی مسئلہ کھل کر بیان کرے گا۔ اے علمائے حقانی پرواہ نہ کیجئے یہ دنیا چند روزہ ہے، محض اپنے مولائے کریم کی رضا کے لیے اس کی توحید کا مسئلہ کھول کر بیان کیجئے قبر اور حشر میں یہی کام آئے گا، الزام تراشنے والے پہلے بھی نہیں رہے اور ان شا ءاللہ اب بھی اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ قبر میں معلوم ہوگا کہ کس کی قبر تاریک ہے اور کس کی قبر میں جنت کہ ٹیوبیں جگمگارہی ہیں۔
چوتھی تقریر
حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی دعوت توحید: وَاذْكُرُ فِي الْكِتَبِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لَابِيهِ يَأْبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَالَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا. ( پاره ۶ ) (مریم) ترجمہ: اور ذکر کیجئے کتاب میں ابراہیم کا بے شک وہ بہت ہی سچا نبی تھا۔ جب کہا اپنے باپ سے اے میرے باپ تو ان کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتے اور نہ دیکھتے اور نہ تیرے کچھ کام ہی آتے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم نے پہلے کلمہ توحید اپنے والد کے سامنے بلند کیا اور فرمایا کہ ابا جی ! تیرے باطل معبود نہ عالم الغیب ہیں اور حاضر و ناظر اور نہ ہی نفع ونقصان کے مالک ہیں تو آپ ان کی پوجا کیوں کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ حضرت ابراہیم کا والد سنجیدگی سے آپ کی تقریر اور دعوت پر غور کرتا نہایت غصے میں آ کر کپکپائے ہوئے دھمکی آمیز لہجہ میں کہنے لگا کہ۔ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ الِهَتِى يَا بُرَاهِيمُ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَا رُجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا. اس نے کہا کہ کیا تو میرے معبودوں سے روگردانی کرتا ہے۔ اگر تو نہ رکا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور مجھ سے دور ہوجا مدت تک یعنی باپ حضرت ابراہیم کے روئے سخن کو سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہے کہ تو مجھے اپنے معبودوں کی عبادت سے روکنا چاہتا ہے۔ خبر دار اگر تو باز نہ آیا تو دوسزائیں دوں گا۔ سنگسار کرادوں گا گھر سے نکال دوں گا(وغیرہ)
چنانچہ حضرت ابراہیم نے جب اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اپنی قوم کو کلمہ توحید سنایا: قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُمْ مِّنَ الشَّهِدِينَ. ( سورة انبياء ) ابراہیم نے کہا یہ تمہارے رب نہیں ہیں) بلکہ تمہارا پروردگار زمینوں اور آسمانوں کا پروردگار ہے۔ جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات کا قائل ہوں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم نے ان کے بعض کے ناک کان وغیرہ کاٹ دیئے تا کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ ان کے معبود کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ مشرکین نے جب اپنے معبودوں کا یہ حشر حضرت ابرہیم کے ہاتھوں دیکھا تو کہنے لگے۔ قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَذَا بِالِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّلِمِينَ انہوں نے کہا ہمارے معبودوں سے یہ سلوک کس نے کیا وہ بہت بڑا ظلم ہے۔ چند مشرکین نے انہی میں سے کہا۔ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يُذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ. انہوں نے کہا ہم نے سنا ہے ایک نو جوان جسے ابراہیم کہتے ہیں ان کے متعلق کچھ کہتا رہتا ہے انہوں نے کہا کہ اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تا کہ وہ اسے دیکھ لیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کو گرفتار کر کے نمرود کے سامنے پیش کیا جاتا ہے پھر نمرود اور تمام قوم نے متفقہ فیصلہ دیا کہ حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُمُ) ترجمہ: انہوں نے کہا ابرہیم کو جلا دو ۔ اس میں ہمارے معبودوں کی بات رہ جائے گی!
حضرات گرامی! ابراہیم کا عقیدہ تھا کہ ان کی قوم کے بنائے ہوئے معبود نہ حاضر و ناظر ہیں۔ ہی نہ نفع نقصان کے مالک ہیں۔ یہ عقیدہ بیان کرنے کے جرم میں مشرک باپ نے دوسزائیں تجویز کیں۔ و سنگسار کر دیا جائے۔ یا گھر سے نکال دیا جائے۔
قوم نے سزائے موت کا فیصلہ کیا !
عہد حاضر کا مشرک بھی تو حید پرستوں کے متعلق یہ تین فیصلے ہی کرتا ہے۔ موحد کو مار مار کر ادھ موا کردو! پتھروں سے لاٹھیوں سے تلواروں سے گولیوں سے۔ موحدین کے جلسوں میں پتھراؤ غالباً اسی دستور کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ سنگدلوں کا سنگباری کر نا شعار بن چکا ہے۔
اکثر مقامات پر اہل حق کا بائیکاٹ اسی آزری طریقہ کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ آخر علمائے ربانی کو قتل کرنا اور ان کے خون سے مساجد کو لالہ زار بنا دینا کون سی دینی خدمت ہے؟ یہ صرف اور صرف عقیدہ توحید کے بیان کرنے کی سزا ہے!
پانچویں تقریر
حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کا تذکرہ قرآن نے یوں کیا ہے: وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَالَكُمْ مِّنْ إِلَهِ غَيْرُهُ. (پ ۸ اعراف) قوم مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے جونہی مسئلہ تو حید اپنی قوم کے سامنے پیش فرمایا بس پھر کیا تھا۔ ہر طرف مظاہرے تھے۔ میٹنگیں تھیں ۔ طوفان تھا اور حضرت شعیب کے خلاف مخالفت اور مخاصمت کا ایک بحران پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ وڈیروں مجاوروں اور پروہتوں کے ہاں ایک میٹنگ ہوئی اور انجمن مشرکین کے تمام ممبران جمع ہوئے غضبناک ہو کر یہ قراردار پاس کر کے حضرت شعیب کو جواب دیا: قَالَ الْمَلا الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِ جَنَّكَ يَشُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا . ( پاره ۹ (اعراف) شعیب کی قوم کے متکبر لوگوں نے کہا کہ اے شعیب ہم تجھے اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ یا تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ گے۔ قوم شعیب نے پھر کہا ! قَالُوا يَشْعَيْبُ اَصَلوتُكَ تَأْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَانَشْؤُا. ( پاره ۱۲ هود) انہوں نے کہا کہ اے شعیب کیا تیری نماز نے تجھے یہ سکھایا کہ ہم چھوڑ دیں ان معبودوں کو جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے۔ یا جو کچھ ہم مالوں میں کرتے ہیں وہ چھوڑ دیں؟
حضرات گرامی! مشرکین نے حضرت شعیب کو دھمکیاں دیں۔ ملک بدر کیوں کر دیا جائے گا۔ اس لیے کہ شعیب نے ان کے معبودان باطلہ کی تردید کیوں کرتے ہیں۔ عہد حاضر کا مشرک بھی یہی ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ آپ کو ملک بدر کر دیا جائے گا آپ کے ساتھیوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ شہر کی حدود سے نکال دیا جائے گا۔ شہر کی بڑی مسجد سے نکال دیا جائے گا۔ محلے کی مسجد سے نکال دیا جائے گا۔ مگر علمائے حق
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیئے ہیں انداز خسروانہ”
چھٹی تقریر
حضرت یعقوب علیہ السلام نے کی دعوت توحید اسطرح قرآن نے بیان فرمایا ہے: ام كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ اذْقَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي. قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ وَإِلهُ ابَآئِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَهَا واحِدًا. پاره / بقره)
کیا تم حاضر تھے جس وقت یعقوب کی موت آئی جب انہوں نے اپنے بیٹیوں سے کہا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم تیرے اور تیرے باپ دادا ابرہیم و اسماعیل اور اسحاق کے ایک ہی معبود کی عبادت کیا کریں گے۔
معلوم ہوا کہ یعقوب کی اولاد کا وہی عقیدہ تھا جس پر حضرت ابراہیم اور خدا کے برگزیدہ پیغمبر قائم تھے اور دن رات ایک کر کے جس کے لیے محنت فرماتے رہے۔
ساتویں تقریر
حضرت یوسف علیہ السلام کی دعوت توحید: يصَاحِبَى السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ اَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِةٍ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَّا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَنٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ إِلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (پاره ۱۲) ترجمہ: اے جیل کے ساتھیو: (تم نے اس پر بھی غور کیا کہ ) جدا جدا معبودوں کا ہونا بہتر ہے یا اللہ کا جو اکیلا اور سب پر غالب ہے تم اس کے سوا جن ہستیوں کی بندگی کرتے ہو۔ ان کی حقیقت اس سے زیادہ کیا ہے کہ محض چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اتاری۔ حکومت تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ اس کا فرمان یہ ہے کہ صرف اس کی بندگی کرو۔ اور کسی کی نہ کرو ۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے!
حضرات گرامی! حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو اپنی داستان رنج و الم نہیں سنائی۔ بھائیوں کے ستم نہیں سنائے ، کنویں میں گرانے کے واقعات نہیں دہرائے ۔ اپنے ماضی کی داستان کو نہیں دہرایا۔ والد کے فراق کے صدموں کو نہیں دہرایا۔ بلکہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اگر کسی مسئلہ کو اہمیت دی تو صرف اور صرف مسئلہ تو حید تھا اور بس۔ اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا الله ہے”
آٹھویں تقریر
حضرت عیسٰی علیہ السلام جب اپنی قوم کے سامنے دعوت توحید سنانے کے لیے تشریف لائے تو آپ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ . ( پاره ۶ ( مریم) بے شک اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے۔ پس اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔
حضرات گرامی! انبیاء کی پوری تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ لوگ عداوت انبیاء میں مارے گئے ۔
اور کچھ لوگ محبت انبیاء میں مارے گئے
حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی ان حضرات انبیاء میں شامل ہیں جن کے ماننے والوں نے ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر ان کے ساتھ ایسی محبت کا دعویٰ کیا جو حد و دشریعت میں کسی طرح بھی جائز نہیں تھی۔
انہوں نے عیسٰی علیہ السلام کو ابن اللہ بنا دیا، یہ دشمنی سے نہیں بنایا بلکہ محبت میں ، اسی طرح عہد حاضر کے غالی نے سرکار دو عالم ﷺ کی بشریت کا انکار کر کے انہیں نور من نور اللہ بنا دیا یعنی حضور اللہ کے نور ذاتی کا ٹکڑا ہیں۔ پہلا غالی بھی غلو میں مارا گیا دوسرا غالی بھی غلو میں مارا گیا۔ اسی لیے سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لاتطروني كما اطرت النصارى ابن مريم انا عبد فقولوا عبدالله ورسوله. (بخاری) کہ دیکھو مجھے حد سے نہ پڑھانا جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسی کو حد سے بڑھا دیا، میں صرف اللہ کا بندہ ہوں۔ لہذا تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو۔ آپ نے فرمایا۔ اياكم والغلو فانما اهلك من كان قبلكم الغلو ! (الحديث) خبر دار ! غلو سے ہمیشہ بچنا اس لیے کہ تم سے قبل جولوگ تھے۔ وہ اس غلو سے تباہ کئے گئے ۔
نویں تقریر اما الانبیاء حضرت محمد ﷺ
امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ جب سرزمین مکہ میں تشریف لائے تو آپ نے سب سے پہلا وعظ جو فاران کی چوٹیوں سے ارشاد فرمایا یہی تھا: ياايها الناس قولو الا اله الا الله تفلحوا.
کہ اے لوگوں کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ فلاح پاؤ گے۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهُ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (پارہ ۷ انعام) آپ کہہ دیجئے کہ بس وہ ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ آپ نے فرمایا فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ . (محمد) پس جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ نے فرمایا: قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ إِلَهِ إِلَّا اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ. (سوره ص) فرمادیجئے کہ میں ڈرانے والا ہوں اور اللہ واحد قہار کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
مشرکین مکہ کے سامنے سرکار دو عالم ﷺ نے جب مسئلہ تو حید بیان فرمایا تو انہوں نے نہایت ہی سختی سے آپ کا مقابلہ کیا۔ آپ کو درد ناک مصائب پہنچائے ۔ آپ پر پتھر برسائے گئے اور آپ کو بار بازخمی کیا گیا۔ آپ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے ۔ نہ صرف عملی اعتبار سے آپ کا مقابلہ کیا گیا۔ بلکہ زبان کے پتھروں سے بھی زخمی کرتے تھے۔ وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا سَحِرٌ كَذَّابٌ. (ص) کہا منکروں نے یہ جادوگر ہے جھوٹا (نعوذبااللہ) اسی طرح جو مشرکین کی زبان پر آتا تھا وہ اول فول بکتے ھے۔ مگر مجھے ہے حکم اذاں لا اله الا الله)
حضرات گرامی: آپ نے خطبہ مسنونہ میں پڑھی گئی آیت کریمہ کی روشنی میں توحید کی تشریح و توضیح سماعت فرمائی جس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ اللہ نے قرآن پاک میں انبیاء کی مشترکہ دعوت کا ذکر فرمایا ہے ۔ وہ مشتر کہ دعوت کیا تھی؟ صرف اور صرف مسئلہ تو حید کا بیان اور عقیدہ توحید کا سبق”
نقط ادوار عالم لا الہ الا اللہ
انتہائے کار عالم لا الہ الا اللہ
وَمَا عَلَيْنَا الَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينِ